سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(583) پبلک پارکوں میں نماز کا حکم

  • 16847
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 806

سوال

(583) پبلک پارکوں میں نماز کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پبلک پارکوں میں نماز پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے کیونکہ انہیں ایسے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے جس سے بدبواٹھ رہی ہوتی ہے ؟مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانی یا تو گٹروں کا صاف شدہ پانی ہوتا ہے یا ایسے کنووں کا جن میں ناپاک سیورج کا پانی مل جاتا ہے ۔کیا محکمہ کی طرف سے لوگوں کو ان پارکوں میں نماز اداکرنے سے منع کیا جاسکتا ہے؟امید ہے آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرما کر شکریہ کا موقع بخشیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب تک ان پارکوں سے بدبوآتی رہے ان میں نماز صحیح نہ ہوگی کیونکہ نماز کے صحیح ہونے کی شرطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جگہ بھی پاک ہو جہاں مسلمان نماز پڑھ رہا ہو،لہذا اگراس جگہ کوئی پاک صا ف کپڑا بچھا کراس پر نمازپڑھ لی جائے تونماز صحیح ہوگی لیکن کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ پارکوں میں نماز پڑھے ،خواہ اس نے پاک صاف کپڑا ہی کیوں نہ بچھالیا ہوکیونکہ کہ اس کے لئے واجب یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کراللہ تعالی کے ان گھروں یعنی مسجدوں میں نماز اداکرے جن کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایاہے:

﴿فى بُيوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرفَعَ وَيُذكَرَ فيهَا اسمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ ﴿٣٦رِجالٌ لا تُلهيهِم تِجـٰرَةٌ وَلا بَيعٌ عَن ذِكرِ اللَّهِ وَإِقامِ الصَّلو‌ٰةِ وَإيتاءِ الزَّكو‌ٰةِ يَخافونَ يَومًا تَتَقَلَّبُ فيهِ القُلوبُ وَالأَبصـٰرُ ﴿٣٧ لِيَجزِيَهُمُ اللَّهُ أَحسَنَ ما عَمِلوا وَيَزيدَهُم مِن فَضلِهِ وَاللَّهُ يَرزُقُ مَن يَشاءُ بِغَيرِ حِسابٍ ﴿٣٨﴾... سورة النور

‘‘ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے کہ بلند کئے جائیں اوران میں اللہ کا نام ذکر کیا جائے،وہاں صبح شام اللہ تعالی کی تسبیح (پاکی)بیان کرتے ہیں،ایسے لوگ جنہیں تجارت اورخریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اورنمازقائم کرنے اورزکوۃ اداکرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اورآنکھیں الٹ جائیں گی۔تاکہ اللہ ان کو ان کے عملوں کا بہت اچھا (اوبہترین )بدلہ دے اوراپنے فضل سے زیادہ بھی عطاکرےاوراللہ جس کو چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے۔’’

اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہےکہ:

«من سمع النداء فلم يات فلا صلاة له الا من عذر» (سنن ابن ماجه)

 ‘‘جوشخص اذان کی آواز سنے اورپھر مسجد میں نمازکے لئے نہ آئے تواس کی نہیں ہوتی الایہ کہ اس کے پاس کوئی (شرعی)عذرہو۔’’

اس حدیث کو ابن ماجہ ،دارقطنی،ابن حبان اورحاکم نے روایت کیااوراس کی سند مسلم شرط کے مطابق ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نابینا شخص نے یہ سوال کیا تھا کہ یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !میرے پاس کوئی معاون نہیں جو مجھے مسجد میں لے جایا کرے توکیا میرے لئے گھر میں نماز اداکرنے کی رخصت ہے؟

«هل تسمع النداء بالصلاة؟ قال نعم :قال فاجب »(صحیح مسلم)

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا‘‘کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟’’اس نے عرض کیا ‘‘جی ہاں’’تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘پھر اس آواز پر لبیک کہو۔’’

اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے اوراس مضمون کی اوربھی بہت سی احادیث ہیں۔

محکمہ امربالمعروف ونہی عن المنکرپر واجب ہےکہ وہ لوگوں کو باغوں اورپارکوں میں نماز پڑھنے سے روکے اورمسجدوں میں نماز اداکرنے کا حکم دے تاکہ اللہ تعالی کے حسب ذیل ارشادگرامی:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ... ﴿٢﴾... سورة المائدة

‘‘نیکی اورپرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مددکیا کرو۔’’

اورفرمان باری تعالی:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ يَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ...﴿٧١﴾... سورة التوبة

‘‘اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کےممد ومعاون اوردوست ہیں ۔وہ اچھے کاموں(بھلائیوں)کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سےمنع کرتے ہیں۔’’

اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ذیل فرمان پر عمل ہوسکے کہ ‘‘

«من راي منكم فليغيره بيده فان لم يستطع فبلسمائه فان لم يستطع فبقلبه وذلك اضعف الايمان»(صحيح مسلم ...تزمذي...مسند احمد )

تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے،اگراس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے (سمجھادے)اوراگراس کی طاقت بھی نہ ہو تو اپنے دل سے (اسے براسمجھے)اوریہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے۔’’(صحیح مسلم)(شيخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 468

محدث فتویٰ

تبصرے