سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(228) پہلے تشہد میں درود شریف پڑھنا چاہیے یا نہیں.؟

  • 1684
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1174

سوال

(228) پہلے تشہد میں درود شریف پڑھنا چاہیے یا نہیں.؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پہلے تشہد میں درود شریف پڑھنا چاہیے یا نہیں جبکہ حدیث شریف میں اس طرح بھی ہے:

«اِنْ کَانَ فِیْ وَسَطِ الصَّلٰوةِ نَهَضَ حِيْنَ يَفْرُغُ مِنْ تَشَهُّدِه» رواہ احمد عن ابن مسعود

  ’’جب آپ نماز کے درمیان میں ہوتے تو آپ صرف تشہد پڑھ کر کھڑے ہو جاتے‘‘ اس کا کیا مطلب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے قعدہ میں بھی درود پڑھنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيۡهِ وَسَلِّمُواْ تَسۡلِيمًا﴾--الاحزاب56

’’اے ایمان والو تم بھی اس (نبیﷺ) پر درود پڑھو اور اس پر سلام بھیجو‘‘

کسی صحیح مرفوع حدیث میں درود کے بارے پہلے دوسرے قعدے میں فرق وارد نہیں ہوا رہی وہ حدیث جو آپ نے نقل فرمائی ہے تو وہ مرفوع نہیں موقوف ہے کیونکہ ’’إِنْ کَانَ فِی وَسَطِ الصَّلٰوةِ‘‘ الخ میں ضمیر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ نبی کریمﷺکی طرف دلیل اس کی یہ ہے کہ یہی حدیث صحیح ابن خزیمہ ۳۴۸/۱میں بایں الفاظ بھی آئی ہے ۔

« أَنَا اَبُوْ طَاهِرٍ نَا اَبُوْبَکْرٍ نَا الْقُطْعِی مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيٰی نَا عَبْدُ الْاَعْلٰی نَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ عَن عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ اَبِيْهِ اَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ عَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِی الصَّلٰوةِ قَالَ کُنَّا نَحْفَظُه عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ کَمَا نَحْفَظُ حُرُوْفَ الْقُرْآنِ اَلْوَاوَ وَالْاَلِفَ فَاِذَا جَلَسَ عَلٰی وَرِکِهِ الْيُسْرٰی قَالَ اَلتَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ اَلسَّلاَمُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِيْنَ اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ ثُمَّ يَدْعُوْا لِنَفْسِهِ ثُمَّ يُسَلِّمُ وَيَنْصَرِفُ »

’’حضرت عبدالرحمن بن اسود بیان کرتے ہیں اپنے باپ (اسود) سے وہ فرماتے ہیں ہمیں عبداللہ بن مسعود نے خبر دی کہ بے شک رسول اللہ ﷺ ان کو تشہد فی الصلوٰۃ سکھاتے اسود کہتے ہیں ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس (تشہد) کو اس طرح یاد کرتے جس طرح ہم قرآن کے حروف واو ، الف یاد کرتے پس جب آپ بیٹھتے اپنی بائیں ران پر تو کہتے تمام قولی ، فعلی ، مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں سلامتی ہو تجھ پر اے نبیﷺ اور اس کی رحمت وبرکات ہوں ۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں پھر اپنے نفس کے لیے دعا کرتے پھر سلام پھیرتے اور نماز سے پھرتے‘‘ درمیانے قعدہ میں درود نہ پڑھنے پر گرم پتھروں والی حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے مگر وہ سنداً  صحیح نہیں کیونکہ اس کی سند میں ابو عبیدہ ہے جس کا اپنے باپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ۔’’اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا درود وسلام اپنے حبیبﷺ تک پہنچانے کا بندوبست کیا ہوا ہے۔( ابوداود المناسک ، باب زیارۃ القبور حدیث ۲۰۴۱ ، ۲۰۴۲) تو جس طرح ہم اپنی خط وکتابت میں صیغہ خطاب کے ساتھ ایک دوسرے کو سلام بھیجتے ہیں اسی طرح ہمارا سلام بھی اللہ تعالیٰ ان تک پہنچا دیتے ہیں الغرض الفاظ تشہد (عَلَيْکَ اَيُّهَا النَبِیُّ) سے شرکیہ عقیدہ (آپ ﷺکے عالم الغیب یا حاضر وناظر ہونے) کی قطعاً تائید نہیں ہوتی‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 197

محدث فتویٰ

 

تبصرے