سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(363)نبی اکرم ﷺ کے حاضر و ناظر اور عالم الغیب ہونے کی بحث

  • 16839
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2667

سوال

(363)نبی اکرم ﷺ کے حاضر و ناظر اور عالم الغیب ہونے کی بحث

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نبیﷺ حاضروناضر ہیں؟ یعنی کیا وہ غیب جانتے ہیں کہ ان کے لئے حاضر اور غائب سب برابر ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غیب کے معاملات کے بارے میں اصولی اور بنیادی بات یہی ہے کہ ان کا علم اللہ کا خاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿ وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٥٩﴾...الأنعام

’’غیب کی کنجیاں اس کے پاس ہیں‘ انہیں صرف وہی جانتا ہے اور زمین کی تارکیوں میں جو بھی دانہ ہے اور جو بھی خشک وتر ہے وہ کتاب مبین میں موجود ہے۔‘‘

نیز فرمایا:

﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ﴿٦٥﴾...النمل

’’(اے پیغمبر!) فرمادیجئے اللہ کے سوا آسمانو ںاور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ وہ یہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘

لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے؟ غیب کی جوبات چاہتا ہے بتا دیتا ہے۔ ارشاد ہے:

﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴿٢٧﴾...الجن

’’وہ غیب جاننے والا ہے بس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا‘ مگر جس رسول کو پسند فرمائے‘ تو اس (تک پہنچنے والے پیغام) کے آگے پیچھے نگران روانہ کرتاہے۔‘‘

مزید فرمایا:

 ﴿قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴿٩﴾...الأحقاف

’’(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور نہ تمہارے ساتھ (ہونے والے معاملات سے واقف ہوں) میں تو صرف اس چیز کی پیروی کرتاہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو صرف واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔‘‘

ایک اور حدیث میں حضرت امام علاء  سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فوت ہوئے او رہم نے انہیں کفن کے کپڑے پہنادئے تو رسول اللہe ہمارے پاس تشریف لائے۔ میں نے کہا۔ اے ابو السائب عثمان بن مظعون! تجھ پر اللہ کی رحمت ہو۔ میں تیرے حق میں گواہی دیتی ہو ں کہ اللہ نے تجھے عزت بخشی۔‘‘

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(وَمَا یُدْرِیکِ أَنَّ الله أَکْرَمَه)

’’تجھے کیا معلوم کہ اللہ نے اسے عزت بخش دی ہے؟‘‘ میں نے عرض کی ’’یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے تو معلوم نہیں۔‘‘ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

(أَمَّا ھُوَ فَقَدْ جَائَه الْیَقِینُ وَاللّٰه إنِّی لأَرْجُو لَه الْخَیْرَ وَالله مَا أدْرِی وَأَنَارَسُولُ الله مَا یُفْعَلُ بِی)

’’اس کے پاس یقنی چیز (موت) آچکی ہے۔ قسم اللہ کی! میں اس کے لئے بھلائی کی امید رکھتا ہوں۔ قسم ہے اللہ کی! میں اللہ کا رسول ہونے کے باوجود نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔‘‘

میں نے کہا:

(وَالله لَا أُزّکِّی بَعْدَه أَبَدًا)

’’اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کسی کی صفائی نہیں دوں گی۔‘‘

یہ حدیث امام احمد نے روایت کی ہے اور امام بخاری نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں کتاب الجنائز میں روایت کی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں۔

(مَا أَدْرِی وَأَنَا رَسُولُ الله مَا یُفْعَلُ بِی)

’’مجھے بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘

بہت سی احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو بعض صحابہ کرام﷢ کے انجام کی خبر دی تھی‘ چنانچہ نبیﷺ نے ان صحابہ﷢کو جنت کی بشارت دی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عمر بن خطاب﷜ کی حدیث ہے کہ جبرائیل﷤ نے نبیﷺ سے قیامت کے متعلق پوچھا تو آپﷺنے فرمایا:

(مَا الْمَسْؤُلُ عَنْھَا بِأَعْلَمَ مَنَ السَّائِلَ)

’’جس سے پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘

اس کے بعد صرف علامات قیامت بیان فرمائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کی بعض غیب باتوں کا علم دیااور بعض کا نہیں دیا اور حضورﷺ نے حسب ضرورت یہ معلومات صحابہ کرام﷢ کو بتائیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے