سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(227) آپﷺپر سلام کس طرح بھیجیں..؟

  • 1683
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 963

سوال

(227) آپﷺپر سلام کس طرح بھیجیں..؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کے عشاء کے ایک درس میں حدیث سنی کہ صحابہ رضی نے پوچھا اللہ کے رسول ہم کو سلام تو آتا ہے آپ پر صلوٰۃ کس طرح بھیجیں تو آپﷺ نے درود ابراہیمی علیہ السلام پڑھایا ۔ اس پر امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت کا باب باندھا تھا ۔ اور آپ نے اس میں سے التحیات کے بعد درود پڑھنے کا مسئلہ بھی اخذ کیا اور فرمایا کہ ہمیں اللہ کے رسولﷺ پر ہر سلام کے بعد درود بھیجنا چاہیے اس میں درمیانی یا آخری التحیات کی کوئی شرط نہیں ہے اور اس پر آپ کا عمل بھی ہے اس وجہ سے میں نے بھی درمیانی التحیات کے بعد درود پڑھنا شروع کر دیا اور اس کی تبلیغ بھی شروع کر دی مگر ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر۳۵۰ میں لکھا ہے

 «بَابُ الْاِقْتِصَارِ فِی الْجَلْسَةِ الْاُوْلٰی عَلٰی التَّشَهُّدِ وَتَرْکِ الدُّعَائِ بَعْدَ التَّشَهُّدِ الْاَوَّلِ ۷۰۸ ۔ أَنَا اَبُوْ طَاهِرٍ ۔ نا اَبُوْبَکْرٍ ۔ نَا اَحْمَدُ بنُ اَظْهَرَ وَکَتَبْتُه مِنْ أَصْلِه حَدَّثَنَا اَبِیْ عَنِ ابْنِ اِسْحَاقَ قَالَ وَحَدَّثَنِیْ عَنْ تَشَهُّدِ رَسُوْلِ اﷲِ فِیْ وَسَطِ الصَّلٰوةِ وَفِی آخِرِهَا۔)عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْاَسْوَدِ بْنِ يَزِيْدَ النَّخْعِیُّ عَنْ اَبِيْهِ قَال(وَکُنَّا نَحْفَظُه عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ کَمَا نَحْفَظُ حُرُوْفَ الْقُرْآنِ حِيْنَ أَخْبَرَنَا اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ عَلَّمَه اِيَّاهُ۔ قَالَ: فَکَانَ يَقُوْلُ ۔ إِذَا جَلَسَ فِی وَسَطِ الصَّلٰوةِ وَفِی آخِرِهَا عَلٰی وَرِکِه يُسْرٰی : اَلتَّحِيَّاتُ ﷲ…… اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُوْلَهُ قَالَ ثُمَّ اِنْ کَانَ فِیْ وَسَطِ الصَّلٰوةِ نَهَضَ حِيْنَ يَفْرُغُ مِنْ تَشَهُّدِه وَاِنْ کَانَ فِیْ آخِرِهَا دَعَا بَعْدَ تَشَهُّدِه بِمَا شَائَ اﷲُ اَنْ يَّدْعُوَ ثُمَّ يُسَلِّمُ»

  مزید عبدالعزیز نورستانی نے اپنی کتاب «صَلُّوْا کمَا رَأَيْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ» کے صفحہ نمبر ۴۶ میں لکھا ہے ’’قعدہ اول سے تشہد پورا کرتے ہی اٹھنا‘‘ ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:«اِنْ کَانَ فِیْ وَسَطِ الصَّلٰوةِ نَهَضَ حِيْنَ يَفْرُغُ مِنْ تَشَهُّدِه»(مسند احمد ج۴ ص۳ رجالہ موثوقون ابن خزیمۃ جلد ۱ ص ۳۵۰ واسنادہ حسن صلوا از نورستانی ص ۴۶)  محترم المقام عبدالمنان صاحب بندہ نے دونوں دلائل لکھ دئیے ہیں ان کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ کیا کرنا چاہیے قرآن وسنت کے مطابق تطبیق فرما دیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جو روایت بحوالہ صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد نقل فرمائی ہے وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے رسول اللہﷺ تک مرفوع نہیں کیونکہ« فَکَانَ یَقُوْلُ اِذَا جَلَسَ» الخ اور « ثُمَّ اِنْ کَانَ فِی وَسَطِ الصَّلاَۃِ» الخ میں ضمیر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹتی ہے رسول اللہﷺ کی طرف نہیں لوٹتی جیسا کہ سیاق روایت اسی پر دلالت کر رہا ہے نیز صحیح ابن خزیمہ ہی میں یہی روایت ایک صفحہ پیچھے ص۳۴۸ پر موجود ہے جس کے الفاظ ہیں:

«عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْاَسْوَدِ عَنْ اَبِيْهِ أَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ عَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِی الصَّلاَةِ قَالَ: کُنَّا نَحْفَظُه عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ کَمَا نَحْفَظُ حُرُوْفَ الْقُرآنِ الْوَاوَ وَالْألفَ فَإِذَا جَلَسَ عَلٰی وَرِکِهِ الْيُسْرٰی قَالَ اَلتَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ» الخ

اس روایت سے صاف طور پر واضح ہے کہ «کُنَّا نَحْفَظُه عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ» اور «فَإِذَا جَلَسَ عَلٰی وَرِکِهِ الْيُسْرٰی قَالَ اَلتَّحِيَّاتُ» الخ اسود بن یزید کا مقولہ ہے نہ کہ  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا۔ اور اگر « فکان يقول إِذَا جَلَسَ» اور « ثُمَّ إِنْ کَانَ فِی وَسَطِ الصَّلاَةِ» کی ضمیر رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹانے پر کوئی صاحب اصرار فرمائیں تو یہ روایت مرفوع تو بن جائے گی مگر ہو گی مرسل کیونکہ یہ قول اسود بن یزید کے ہیں جو تابعی ہیں اور معلوم ہے کہ موقوف اور مرسل دونوں حجت نہیں ۔ پہلے قعدے میں درود کی دلیل کے لیے شیخ البانی حفظہ اللہ کی کتاب صفۃ صلاۃ النبیﷺ پڑھیں۔

پھر اس روایت کی رو سے درمیانے اور آخری دونوں قعدوں میں درود نہیں ہے دوسرے قعدے میں تشہد کے بعد دعا ہے پھر سلام تو لامحالہ دوسرے قعدے میں درود کے لیے کوئی اور حدیث یا آیت پیش کی جائے گی اور اس میں دوسرے قعدے کی کوئی تخصیص نہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 195

محدث فتویٰ

 

تبصرے