السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دینی مسائل میں بحث وتمحیص اور افہام وتفہیم کے لئے مردوں اور عورتوں کے باہم میل جول کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مردوں اور عورتوں کا اختلاط بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس بارے میں جناب مفتی شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے ایک فتویٰ صادر فرمایا تھا‘ جو یہاں نقل کیا جاتاہے:
مردوں اور عورتوں کے باہم میل جول کی تین حالتیں ہی:
(۱) عورتوں کا اپنے محرم مردوں کے ساتھ ملنا جلنا۔ اس کے جائز ہونے میں کوئی اشکال نہیں۔
(۲) عورتوں کا اجنبی مردوں سے بری نیت رکھتے ہوئے میل جول رکھنا‘ اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
(۳) عورتوں کا اجنبی مردوس سے درسگاہوں‘ دکانوں‘ دفتروں‘ ہسپتالوں اور مخلوط محفلوں میں ملنا۔اصل میں یہی وہ صورت ہے جس کے متعلق سائل یہ خیال کرسکتاہے کہ اس کیفیت میں وہ ایک دوسرے کے لئے فتنے کا باعث نہیں بنتے۔ اس کی حقیقت واضح کرنے کے لئے ہم اجمالی طور پر بھی جواب دیں گے اور تفصیلی طور پر بھی۔
مختصر جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو قوی بنایا ہے اور ان کی فطرت میں عورتوں کی طرف میلان رکھ دیا ہے۔ عورتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں کی طرف میلان رکھا ہے اور اس کے ساتھ ان میں کمزوری اور نرمی کی خصوصیت رکھی ہے۔ جب دونوں آپس میں ملیں گے تو اس سے ایسے اثرات مرتب ہوں گے جن کا نتیجہ ناجائز مقاصد کے حصول کی صورت میں نکلے گا۔ کیونکہ نفس برائی کا حکم دیا کرتاہے اور نفسانی خواہش انسان کو ا ندھا بہرہ کردیتی ہے اور شیطان برائی اور فحش کام کا حکم دیتا ہے۔
تفصیلی جواب یہ ہے کہ شریعت کی بنیاد کچھ مقاصد اور ان مقاصد کے حصول کے ذرائع پر رکھی گئی ہے اور کسی مقصد تک پہنچانے کے لئے جو ذریعہ اختیار کیا جائے اس کا حکم وہی ہے جو مقصد کا حکم ہے۔ عورتوں سے مردوں کی حاجت پوری ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے وہ دروازے بند کردئے ہیں جن کی وجہ سے ہر مرد عورت سے اور ہر عورت ہر مرد سے تعلق قائم کرسکے۔ قرآن وحدیث کے مندرجہ ذیل دلائل سے یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی۔قرآن مجید سے اس کے چھ دلائل پیش خدمت ہیں:
ہی دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٣﴾...یوسف
’’اور اسے (یوسفi )کو اس عورت نے اس کی ذات کے متعلق بہکایا جس (عورت) کے گھر میں وہ تھا اور اس (عورت) نے (تمام) دروازے بند کرلئے او رکہا: ’’آجا۔‘‘ اسن ؑنے کہا: ’’اللہ کی پناہ‘ وہ میرا مالک ہے‘ اس نے مجھے اپنا ٹھکانا دیا‘ حقیقت یہ ہے کہ ظالم کامیاب نہیں ہوتے۔‘‘
اس آیت سے دلیل اس طرح بنتی ہے کہ جب عزیز مصر کی بیوی کا یوسفi سے میل جول ہوا‘ تو اس کے نتیجے میں اس کے دل کے پوشیدہ جذبات ظاہر ہوگئے۔ اسی لئے اس نے آپ سے جنسی عمل کا مطالبہ کرڈالا۔ لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی رحمت کے ساتھ گناہ سے محفوظ رکھا۔ جیسے کہ ارشادہے:
﴿فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴿٣٤﴾...یوسف
’’پس اس کے رب نے اس کی دعا قبول کر لی اور اس نے عورتوں کی (بری) تدبیر کو اس سے دور ہٹا دیا۔ بے شک وہ (اللہ) سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
اسی طرح جب مردوں کا عورتوں سے میل جول ہوتا ہے تو دونوں جنسوں سے ہر فرد دوسری سری جنس کے پسندیدہ فرد کو منتخب کرلیتا ہے‘ پھر اس کے حصول کے لئے تمام (جائز وناجائز) طریقے اختیار کرتاہے۔
﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗإِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿٣٠﴾ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ...٣١﴾...النور
’’(اے پیغمبر) مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ کو خبر ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں…‘‘
وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ یہ ان کیلئے پاکیزگی کا باعث ہے۔ شارع نے محض اچانک نظر پڑجانے کی صورت میں نرمی فرمائی ہے۔ مستدرک حاکم میں حضرت علی رضی اللہ علیہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے انہیں فرمایا:
(يا عَلِیُّ لاَ تُبْعِ النَّظْرَة النَّظَرَة فَأِنَّمَا لَکَ الأُولٰی وَلَیْسَتْ لَکَ الٓاخِرَة)
’’اے علی! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈال۔ تجھے صرف پہلی نظر کی اجازت ہے‘ دوسری کی نہیں۔‘‘1
(مستدرک حاکم ج: ۳‘ ص: ۱۹۴‘ مسند احمد حدیث نمبر: ۱۳۶۹‘ ج: ۵‘ ص: ۳۵۳‘ سنن ابو داؤد حدیث نمبر: ۲۱۴۹‘ ترمذی حدیث نمبر: ۲۷۷۷۔ سنن دارمی ۲۹۸/۲ مصنف ابن ابی شبیہ ۳۲۴۲)
امام حاکم نے یہ حدیث بیان کر کے فرمایا’’ یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور اسے بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا‘‘ امام ذھبیؒ نے تلخیص میں اس موافقت کی ہے۔ اس مفہوم کی اور بھی کئی حدیثیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نظر نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے کہ غیر محرم عورتوں پر نظر ڈالنا بدکاری میں شامل ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبیeنے فرمایا:
(العَیْنَانِ زِنَا ھُمَا النَّظَرُ وَلأُذُنَانِ زِنَاھُمَا الاسْتِمَاعُ وَالَّسَانُ زِنَاہُ الْکَلَامُ وَالیَدُ زِنَاھَا الْبَطَشُ وَالرِّجْلُ زِنَاھَا الْخَطْوُ)
’’آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے‘ کانو ںکا زنا سنناہے‘ زبان کا زنا بات چیت کرنا ہے‘ ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چلنا ہے‘‘1
(1 صحیح بخاري حدیث نمبر: ۶۶۱۲‘ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۲۶۵۷۔ سنن ابو داؤد حدیث نمبر ۳۱۵۲۔ مسند احمد ج: ۲‘ ص:۲۷۶‘ ۳۱۷‘ ۳۲۹‘ ۳۴‘ ۳۷۲‘ ۳۵۹‘ ۴۱۱‘ ۵۲۸‘ ۵۳۵)
یہ حدیث بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کی ہے اور یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔ اس حرکت کو اس لئے بدکاری کا نام دیا گیاہے کہ مرد نے عورت کے حسن وجمال پر نظر ڈالیں کر نفس امارہ کی ایک خواہش پوری کی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس عورت کا تصور اس کے دل میں جاگزیں ہوجائے گا‘ پھر وہ اس سے بدکاری کرنے کی خواہش کرے گا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب شارع نے عورت کو دیکھنے سے اس لئے منع کیا ہے کہ اس سے یہ خرابی پیدا ہوتی ہے‘ تو عورتوں سے میل جول بھی ممنوع ہونا چاہئے کیونکہ یہی وجہ وہاں بھی پائی جاتی ہے۔ اختلاط کے نتیجے میں بدنظری پیدا ہوتی ہے جن کے بعد اس کے بد ترمرحلے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے اور اس کا وہ نتیجہ نکلتا ہے جو ہر لحاظ سے مذموم ہے۔
تیسری دلیل: گذشتہ سطور میں دلائل بیان کئے جاچکے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے۔ لہٰذا اسے اپنا تمام بدن چھپا کر رکھنا چاہئے۔ اگر بدن کا کچھ حصہ ظاہر ہوا تو اس پر نظر پڑے گی جس کی وجہ سے مرد کے دل میں اس کی طرف میلان پیدا ہوگا پھر اسے حاصل کرنے کے ذرائع اختیار کئے جائیں گے اور یہی نتائج اختلاط کے بھی ہیں‘ لہٰذا وہ بھی ممنوع ہے۔
چوتھی دلیل: اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ... ٣١﴾...النور
’’عورتیں (چلتے ہوئے زمین پر) پاؤں نہ ماریں کہ ان کی وہ زینت معلوم ہوجائے جسے وہ چھپاتی ہیں۔‘‘
وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو زمین پر پاؤں مارنے سے منع کیا ہے حالانکہ یہ کام فی نفسہ جائز ہے لیکن اس لئے منع کر دیا کہ مرد پازیب کی آواز نہ سنیں اور ان کے دلوں میں شہوانی خیالات پیدا نہ ہوں۔ اسی طرح مردوں اور عورتوں کا باہمی اختلاط بھی منع ہے کیونکہ اس سے ناگفتہ بہ خرابی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
پانچویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ ﴿١٩﴾...غافر
’’وہ خیانت کرنے والی آنکھ کو بھی جانتا ہے اور (وہ خیالات جو) سینوں میں چھپے ہوئے ہیں (انہیں بھی جانتاہے)‘‘
حضرت عبداللہ بن عباسt اور دوسرے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’بسا اوقات کوئی شخص دوسرے کے گھر میں (کسی کام سے) داخل ہوتا ہے اور گھر والوں میں کوئی خوش شکل خاتون بھی ہوتی ہے‘ وہ ان کے پاس سے (اپنے گھریلوں کام کے سلسلے میں) گزرتی ہے‘ جب دوسرے افراد کی توجہ اس شخص کی طرف نہیں ہوتی تو‘ وہ اس (عورت) کی طرف دیکھ لیتا ہے۔ جب دوسرے متوجہ ہوتے ہیں تو اس کی طرف نظر ہٹا لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے دل کی کیفیت جانتاہے جس میں اعضائے مستورہ پر نظر ڈالنے کی خواہش موجود ہے اور یہ تمنا بھی کہ اگر موقع مل جائے تو اس سے برائی کا ارتکاب کرلے۔‘‘
اس آیت کی دلیل اس طرح ہے کہ جو شخص چوری چوری ان عورتوں کو دیکھتا ہے جن پر نظر ڈالنا اسے جائز نہیں تو‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ کو ’’خیانت کرنے والی‘‘قرار دیا ہے۔ پھر بے حجاب ملاقات کیسے جائز ہوسکتی ہے؟
چھٹی دلیل: اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو گھروں میں ٹک کر بیٹھنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد رہے:
﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ... ٣٣﴾...الأحزاب
’’اور اپنے گھر میں ٹھہری رہو اور سابقہ جاہلیت کی طرح اپنی زینت نہ دکھاتی پھرو۔‘‘
استدلال اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریمe کی مقدس وپاکیزہ ازاوج مطہرات رضى الله عنهن کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا اور یہ حکم تمام مسلمان عورتوں کیلئے بھی ہے۔ کیونکہ اصول فقہ کا یہ مسلمہ قانون ہے کہ اس طرح کے خطاب کا حکم سب کے لئے عام ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی دوسری دلیل یہ ظاہر کررہی ہو کہ یہ حکم خاص افراد کے لئے ہے اور مذکورہ بالا آیت میں تخصیص کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ تو جب عورتوں کو بغیر کسی مجبوری کے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں بلکہ انہیں گھروں میں ٹھہری رہنے کا حکم ہے تو پھر مردوں سے اختلاط کس طرح جائز ہوسکتاہے؟ خصوصاً موجودہ حالات میں جب کہ عورتوں میں سرکشی‘ بے حیائی اور اجنبی مردوں کی موجودگی میں بے پردگی عام ہوگئی ہے اور خاوندوں اور سرپرستوں کی طرف سے روک ٹوک بہت کم ہوچکی ہے۔ اس مسئلہ میں حدیث نبوی سے بہت سے دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں۔ ہم صرف دس دلائل پر اکتفا کریں گے۔
(۱) امام احمد بن حنبل رحمه الله علیہ نے اپنی کتاب ’’مسند‘‘ میں حضرت ابو حمید ساعدی کی زوجہ محترمہ ام حمید رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی ہے کہ وہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یا رسول اللہ! میں آپ کے ساتھ (باجماعت) نماز ادا کرنا پسند کرتی ہوں‘ آپﷺ نے فرمایا:
(قَدْ عَلِمْتُ أَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلَاة مَعِیَ وَصَلَاتُکِ فِی بَیْتُکِ خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِکِ فِی حُجْرَتِکِ وَصَلَاتُکِ فُی حُجْرَتِکِ فِیی دَارِکِ وَصَلَاتُکِ فِی دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَصَلَاتُکِ فِی مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیخرٌ مِنْ صَلَاتِکِ فِی مَسْجِدِی)
’’مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز ادا کرنا پسند کرتا ہو۔ تمہارا کوٹھڑی کے اندر نماز پڑھنا دالان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور دالان میں نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا اپنے قبیلے (یامحلے) کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد (مسجد نبوی) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے گھر کی سب سے دوروالی اور تاریک کوٹھڑی میں نماز کی جگہ بنوالی‘ اللہ کی قسم! وفات تک وہ وہیں نماز پڑھتی رہیں۔‘‘1
1 مسند احمد ج: ۲‘ ص‘۳۷۱
امام بن خزیمہ' نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله عنه سے روایت کیا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
(أِنَّ أَصْحَبَّ صَلَاة الْمَرْأَة إلَی الله فِی أَشَدَّ مَکاَنِ مِنْ بَیْتِھَا ظُلْمة)
’’اللہ تعالیٰ کو عورت کی وہ نماز سب سے زیادہ پسند ہے جسے وہ گھر میں سب سے تاریک جگہ میں ادا کرے۔‘‘1
( 1صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر: ۱۶۸۰‘ ۱۶۹۱‘ ۱۶۹۲‘ صحیح ابن حبان حدیث نمبر ۲۲۱۷‘ مصنف بن ابی شیبہ ج: ۲ص: ۳۸۲‘ ۳۸۵‘ معجم طبراني ج: ۲‘ ص: ۳۵)
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کیلئے مسجد کی نسبت گھر میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ ان حدیثوں سے مذکورہ بالا مسئلہ کی دلیل اس طرح بنتی ہے کہ جب شریعت نے اسے گھر میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور گھر میں اس کی نماز مسجد نبوی میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی اقتداء میں پڑھی ہوئی نماز سے افضل قرار دی ہے۔ پھر کسی اور کام کے لئے اسے مردوں سے میل جول رکھنا تو بدرجہ اولیٰ منع ہوگا۔
(۲) امام مسلم‘ ترمذی اور دیگر محدثین ' نے حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه سے حدیث بیان کی ہے جناب محمد صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
(خَیْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُھَا، وَشَرُّھَا آخِرُھَا، وَخَیْرُ صُفُوْفِ النِّسَائِ آخَرُھَا وَشَرُّھَا أَوَّلَھَا) (رواہ مسلم)
’’مردوں کی بہترین صف پہلی (سبسے آگے والی) ہے اور بدترین (نکمی) صف پچھلی (پیچھے والی) ہے اور عورتوں کی سب سے بہترین صف پچھلی ہے اور ان کی بدترین (نکمی)صف اگلی ہے۔‘‘ امام ترمذی نے یہ حدیث بیان کرکے فرمایا: ’’یہ حدیث صحیح ہے‘‘2
(2صحیح مسلم حدیث نمبر: ۴۴۰‘ سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۶۷۸‘ جامع ترمذي حدیث نمبر: ۲۲۴‘ سنن مجتبی نسائی حدیث نمبر: ۸۲۱‘ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۱۰۰۰‘ صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر ۱۹۹۳‘ سنن دارمي حدیث نمبر: ۱۲۷۲)
(۳) صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله عنه کی زوجہ حضرت زینبرضى الله عنها سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا:
(إذَا شَھِدَتْ أِحْدَاکُنَّ الْمَسْجِدَ فَلاَ تَمَسَّ طِیِّبَا)
’’تم میں سے کوئی عورت جب مسجد میں آئے تو خوشبو کو ہاتھ نہ لگائے۔‘‘ 1
(1 مسند احمد ج:۲‘ ص:۳۲۳۔ صحیح مسلم حدیث نمبر:۴۴۳۔ صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر: ۔۱۶۸۔ صحیح ابن حبان حدیث نمبر: ۱۲۱۲‘ ۱۲۱۵)
سنن ابی داؤد‘ مسند امام احمد اور مسند امام شافعی میں حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(لاَ تَمْتَعُوا إمَاء الله مَسَاجِدَ الله وَلٰکِنْ لِیَخْرُجْنَ وَھُنَّ تَفِلَاتٌ)
’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجد (میں آنے) سے منع نہ کرو‘ لیکن وہ خوشبو لگائے بغیر آئیں۔‘‘2
(2 مسند احمدج: ۲‘ ص: ۴۷۵‘ ج:۵‘ ۱۹۲‘ ۱۹۳‘ ابي داؤد حدیث نمبر: ۵۶۵۔ صحیح اب خزیمہ حدیث نمبر ۱۶۷۹۔ سنن دارمی حدیث نمبر ۱۲۸۲۔ صحیح اب حبان حدیث نمبر: ۲۲۱۱‘ ۲۲۱۴)
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئہے ابن دقیق العید فرماتے ہیں: ’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عورت مسجد میں جانا چاہتی ہو اسے خوشبو استعمال کرنا حرام ہے‘ کیونکہ اس سے مردوں کے صنفی جذبات کو انگیخت ہوتی ہے او ربسا اوقات اس سے عورتوں میں صنفی جذبات بیدار ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔‘‘ اس کے بعد فرمات ہیں: ’’اس قسم کی دوسری چیزوں کا حکم بھی خوشبو والا ہی ہوگا‘ مثلاً عمدہ لباس اور وہ زیور جس کی موجودگی کا دوسروں کو احسا س ہو اور فاخرانہ ہئیت۔ ابن حجر رحمة الله عليه نے فرمایا۔ ’’مردوں سے اختلاط کا بھی یہی حکم ہے (یعنی حرام ہے۔)‘‘ خطائی نے معالم السنن نے فرمایا: ’’تفل‘‘ کا مطلب ناپسندیدہ بو ہے اور جب عورت نے خوشبو نہ لگائی ہو تو اسے تفلۃ کہتے ہیں اور (اور جمع کے لئے کہتے ہیں) ’’نساء تفلات‘‘ 3 (حدیث میں یہی لفظ آیا ہے)
3 احکام الاحکام ج: ۲‘ ص:۱۳۹۔
(۴) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(إنَّ الدُّنْیَا حُلْوَة خَضِرَة وَإنَّ الله مُسْتَخْلِفَنَّکُمْ فِیھَا فَنَاظِرٌ کَیْفَ تَعْلَمُوْنَ فَاتَّقُو الدُّنْیَا وَاتَّقُو النِّسَاء فَأِنَّ أَوَّلَ فِتْنَة بَنِی أِسْرَائِیلَ کَانَتْ فِی النِّسَاء)
’’بے شک دنیا میٹھی اور سرسبز ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنانے والا ہے (پہلی قوموں کی جگہ تمہیں آباد کرے گا) پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہٰذا دنیاسے بچو اور عورتوں سے بچو‘ کیونکہ بنی اسرائیل کی پہلی آزمائش عورتوں کے ذریعے ہی ہوئی تھی۔‘‘1
(1 مسند احمدج: ۳‘ ص:۱۹‘ ۲۲‘۶۱۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۴۲۔ سنن بیہقي ج: ۷‘ ص: ۹۱۔جامع ترمذی حدیث نمبر: ۲۱۹۱۔ سنن ابن ماجہ نمبر:۴۰۰۰۔ صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر: ۱۴۹۹)
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ وجہ دلالت یہ ہے کہ نبی کریمe نے عورتوں سے بچنے کاحکم دیا ہے اور ’’امر‘‘ کے صیغہ سے ’’وجوب‘‘ ثابت ہوتا ہے۔ پھر اختلاط کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کس طرح ممکن ہے؟ لہٰذا ثابت ہوا کہ اختلاط جائز نہیں۔
(۶) امام ابو داؤد نے ’’سنن‘‘ میں اور امام بخاری نے ’’الکنی‘‘ میں اپنی اپنی سند سے حضرت ابو اسید انصاری رضى الله عنه سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلى الله عليه وسلم سے یہ حدیث اس وقت سنی جب آپ صلى الله عليه وسلم مسجد سے باہر تشریف لارہے تھے۔ راستے میں مرد اور عورتیں مل جل کر چلنے لگے تو نبی صلى الله عليه وسلم نے عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
(اسْتَأْخِرْنَ فَأِنَّه لَیْسَ لَکُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِیقَ عَلَیکُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِیقِ)
’’پیچھے رہو‘ تمہارے لئے مناسب نہیں کہ راستے کے درمیان میں چلو‘ تم راستے کے کناروں پر چلا کرو‘‘
(اس کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ) ہر عورت دیوار سے لگ کر چلتی تھی‘ حتیٰ کہ دیوار سے بہت قریب چلنے کی وجہ سے (بسااوقات) کپڑا دیوار میں اٹک جاتا۔2
2 سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۵۲۷۲۔
حدیث کے یہ الفاظ ابو داؤد کی روایت کے ہیں۔ ابن کثیر النہایہ فی غریب الحدیث میں کہتے ہیں
’’یحققن الطریق ان یرکبن حقھا وھو وسطھا‘‘ یحققن الطریق کا مطلب یہ ہے کہ درمیان راستے سے چلیں۔
وجہ دلالت یہ ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلمنے عورتوں کو راستہ چلتے ہوئے بھی مردوں سے الگ ہو کر چلنے کا حکم دیا کیونکہ دوسری صورت میں فتنہ پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ پھر دوسرے مقامات پر اختلاط کس طرح جائز ہوسکتاہے؟
(۷) سنن ابو داؤد طیالسی اور دوسری کتب حدیث میں حضرت عمر رضى الله عنه سے روایت کیا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(لَا تَدْخُلُو الْمَسْجِدَ مِنْ بَابَ النِّسَاء)
عورتوں کے دروازے سے مسجد میں داخل نہ ہوا کرو۔‘‘3
(3التاریخ الکبیر ج:۱‘ ص:۲۰۔ سنن ابي داؤد حدیث نمبر: ۴۶۲‘ ۵۷۱۔ سنن طیالسي حدیث نمبر: ۱۸۲۹)
(۸) صحیح بخاری میں حضرت ام المومنین ام سلمہ رضى الله عنها سے روایت ہے کہ:
(کَانَ رسُولُ الله صلى الله عليه وسلم إذَا سَلَّمَ مَنْ صَلَاتِه قَامَ النِّسَاء حِیْنَ یَقْضِی تَسْلِیَمَه وَمَکَثَ النَّبِیُّ صلى الله عليه وسلم فِی مَکَانِه یَسِیراً)
’’جب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نماز سے سلام پھیرتے تو حضور صلى الله عليه وسلم کے سلام پھیرتے ہی عورتیں اٹھ جاتیں اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کچھ دیر اپنی جگہ پر ہی تشریف فرمارہے تھے۔‘‘1
1 صحیح بخاری حدیث نمبر: ۸۴۹‘ سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۱۰۴۰۔ سنن نسائی ج: ۳‘ ص: ۶۷۔ سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر: ۹۱۹۔
صحیح بخاری ہیکی تیسری روایت میں ہے کہ ’’وہ جب فرض نماز سے سلام پھیرتی تھیں تو اٹھ کھڑی ہوتی تھیں اور رسول اللہ اور آپeکے ساتھ نماز پڑھنے والے مرد (کچھ دیر) بیٹھے رہتے جب تک اللہ چاہتا۔ جب رسول اللہe اٹھتے تب مرد بھی اٹھ کھڑے ہوتے۔
اس حدیث سے دلیل اس طرح بنتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ اختلاط سے منع فرمایا اور اس طرح سے واضح فرمادیا کہ دوسرے مقامت پر بھی مردوزن کا اختلاط منع ہے۔
(۹) امام طبرانے نے اپنی ’’معجم کبیر‘‘ میں حضرت معقل بن یسار رضى الله عنه سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(لأَنْ یُطْعَنَ فِی رَأْسِ أَحَدِکُمْ بِمِخْیَطٍ مِنْ حَدِیدٍ خَیخرٌ مِنْ أَنْ یَمَسَّ امْرَأَة لَا تَحِلُّ لَه)
’’کسی کے سر میں لوہے کی سوئی ماری جائے تو وہ اس کے لئے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کوچھوئے جو اس کے لئے جائز نہیں۔‘‘2
2(معجم کبیر طبرانی ۲۰؍۲۱۳۔ مصنف ابن ابی شبیہ ۴؍۳۴۔)
امام ہیشمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیحین کے راوی ہیں۔ منذری نے ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں فرمایا ہے‘‘ اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘
(۱۰) طبرانی نے حضرت ابو امامہ رضى الله عنه کی حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(لأَنْ یَرْحَمَ رَجُلٌ خِنزیرًا مُتَلَطِّخًا بِطِینٍ وَحَمَاة خَیرٌ لَه مِنْ أَنْ یَرْحَمَ مَنْکِبُه مَنْکِبَ امْرَأَة لاَ تَحِلُّ لَه)
’’اگر کوئی آدمی مٹی اور کیچڑ میں لتھڑے ہوئے خنزیر سے آلودہ ہوجائے تو بہتر ہے‘ اس بات سے کہ اس کا کندھا کسی غیر محرم عورت کے کندھے سے لگے۔‘‘3
3 طبرانی۔ دیکھئے مجمع الزوائد ۴؍۳۲۶۔ اس کی سند میں ایک راوی علی بن یزید سخت ضعیف ہے۔
مذکورہ بالا دلائل پر غور کرنے سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں کہ اختلاط سے فتنہ پیدا نہیں ہوتا۔ یہ صرف بعض لوگوں کا قصور ہوسکتا ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے شارع نے اس سے منع فرمایا ہے تاکہ خرابی کی بنیاد ختم ہوجائے۔ یہ حکم واں نہیں ہوگا جاں مجبوری ہو یا سخت ضرورت ہو اور جو عبادت کی جگہ ہو جیسے حرم مدنی میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ گمراہ مسلمانوں کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ مسلمانوں کی ہدایت میں اضافہ فرمائے اورحکمرانوں کوا چھے کام کرنے‘ برے کامنوں سے روکنے اور کم عقلوں پر کنٹرول کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب