سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(222) تشہد میں انگلی کس وقت ہلانی چاہیے.؟

  • 1678
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2259

سوال

(222) تشہد میں انگلی کس وقت ہلانی چاہیے.؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تشہد میں انگلی کس وقت ہلانی چاہیے شروع سے لے کر آخر سلام تک ہلانی چاہیے جو لوگ نہیں ہلاتے ان کے بارے میں وضاحت فرمائیں اور ان کی روایت «يُشِيْرُ بِاِصْبَعِه إِذَا دَعَا وَلاَ يُحَرِّکُهَا»( مشکوۃ)کے بارے میں وضاحت فرمائیں اور احادیث مسند احمد والی لکھ کر سعادت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

مشکوٰۃ باب التشہد فصل اول کی پہلی حدیث:

«عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِﷺاِذَا قَعَدَ فِی التَّشَهُّد الخ»  نقل کرنے کے بعد لکھا ہے «وَفِیْ رِوَايَةٍ کَانَ إِذَا جَلَسَ فِی الصَّلٰوةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلٰی رُکْبَتَيْهِ وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الْيُمْنٰی الَّتِیْ تَلِی الْاِبْهَام يَدْعُوْا بِهَا وَيَدَهُ الْيُسْرٰی عَلٰی رُکْبَتِه بَاسِطَهَا عَلَيْهَا»(رواه مسلم)

’’جب نبیﷺبیٹھتے نماز میں تو رکھتے اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر اور اٹھا لیتے دائیں ہاتھ کی وہ انگلی جو انگوٹھے سے ملی ہے اس سے دعا کرتے اور بایاں ہاتھ گھٹنے پر اس پر پھیلائے ہوئے‘‘

اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہﷺ تشہد کے لیے بیٹھتے ہی دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی اٹھا لیا کرتے تھے پھر اس حدیث میں جیسے دونوں ہاتھوں کے گھٹنوں پر رکھنے کے لیے لفظ ’’ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلٰی رُکْبَتَيْهِ‘‘ استعمال ہوئے ہیں ویسے ہی انگلی اٹھانے کے متعلق لفظ ’’ رَفَعَ اِصْبَعَهُ الْيُمْنٰی‘‘ استعمال ہوئے ہیں تو اب ان دونوں  میں سے اول الذکر کو سلام تک قرار دینا اور ثانی الذکر کو ایک لمحہ بھر قرار دینا کس دلیل کی بنیاد پر ہے ؟

مشکوٰۃ باب التشہد فصل ثانی کی پہلی حدیث کے آخر میں ہے فَرَأَيْتُه يُحَرِّکُهَا يَدْعُوْا بِهَا(رواه ابوداؤد والدارمي)

’’پس میں نے آپ کو دیکھا آپ اس کو حرکت دیتے اس کے ساتھ دعا کرتے‘‘ رہی روایت ’’ وَلاَ يُحَرِّکُهَا‘‘ تو اس کے متعلق شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ تعلیق مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں : « فَالْقَوْلُ بِاَنَّ اِسْنَادَه صَحِيْحٌ لاَ يَخْفٰی بُعْدُه ۔ عَلٰی أَنَّ قَوْلَه فِيْهِ : وَلاَ يُحَرِّکُهَا ۔ شَاذٌ أَوْ مُنْکَرٌ عِنْدِیْ لِأَنَّ ابْنَ عَجْلاَنَ لَمْ يَثْبُتْ عَلَيْهِ»  الخ ’’خلاصہ یہ ہے انگلی کو نہ حرکت دینے والی روایت صحیح نہیں‘‘مسند احمد والی حدیث مندرجہ ذیل ہے : « وَعَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّیْ وَهُوَ مُسْبِلٌ اِزَارَه قَالَ لَه رَسُوْلُ اﷲِﷺإِذْهَبْ فَتَوَضَّأْ قَالَ فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَائَ فَقَالَ لَه رَسُوْلُ اﷲِﷺاِذْهَبْ فَتَوَضَّأْ ثُمَّ جَائَ فَقَالَ رَجُلٌ يا رَسُوْلَ اﷲِ مَالَکَ أَمَرْتَه يَتَوَضَّأُ ثُمَّ سَکَتَّ عَنْهُ ؟ فَقَالَ إِنَّه کَانَ يُصَلِّیْ وَهُوَ مُسْبِلٌ اِزَارَه وَاِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی لاَ يَقْبَلُ صَلاَةَ عَبْدٍ مُسْبِلٍ إِزَارَه»(ذکرہ الہیثمی فی مجمع الزوائد ج۵ ص۱۲۵ وقال رواہ احمد ورجالہ رجال الصحیح (مرعاۃ ج۱ ص۲۰۹)

’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص نماز ادا کر رہا تھا جبکہ اس کا ازار (حد شرعی) سے نیچے تھا رسول اللہﷺنے اس سے فرمایا جائیں وضوء بنائیں وہ گیا اس نے وضوء کیا اور واپس آیا آپ  ﷺ نے فرمایا جائیں وضوء بنائیں ایک شخص نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول  ﷺ آپ نے اسے وضوء بنانے کا حکم کیوں دیا آپ نے جواب دیا وہ اس حالت میں نماز ادا کر رہا تھا جبکہ اس کی چادر (حد شرعی سے)  نیچے تھی اور اللہ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا جس کا ازار ٹخنوں سے نیچے ہو‘‘

ابوداود والی حدیث کے متعلق امام نووی ریاض الصالحین میں لکھتے ہیں رواہ ابوداود باسناد صحیح علی شرط مسلم۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 192

محدث فتویٰ

 

تبصرے