السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گزارش ہے کہ میرا یہ خط پورا پڑھئے تاکہ آپ میرے سوالات کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ سوال یہ ہے کہ انسان‘ نعوذ باللہ‘ مرتد کب ہوتا ہے؟ ممکن ہے میرا سوال عجیب وغریب محسوس ہو لیکن میں اس کی وجہ سے انتہائی پریشانی میں مبتلا ہوں۔ بعض اوقات مجھے اپنے بعض کاموں اور حرکتوں کے متعلق یہ وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کاموں سے ارتداد ثابت ہوتا ہے۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا دل الحمدللہ ایمان پر مکمل طور سے مطمئن ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ کوئی بھی کام کرتے وقت یا کام کرنے سے پہلے مجھے مختلف شکوک وشبہات گھیر لیتے ہیں۔ مثلاً کسی سے بات چیت کرتے ہوئے میں ایک لفظ بولنا چاہتا ہوں لیکن زبان سے وہ لفظ نکلنے سے پہلے اچانک مجھے خیال آتا ہے کہیں یہ کفریہ کلمہ نہ ہو۔چنانچہ میں بات کرتے ہوئے اٹکنے لگتا ہوں۔ بعض اوقات مجھے یہ غور کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی کہ میں لفظ بولوں یا نہ بولوں اور بات کے تسلسل میں وہ خودبخود منہ سے نکل جاتا ہے۔ حالانکہ اس لفظ سے میرا مطلب کفر کا کلمہ بولنا نہیں ہوتا۔ پھر مجھے خیالات ستانے لگتے ہیں کہ کیا میں نعوذ باللہ مرتد ہوچکا ہوں۔ پھر مجھے یہ وسوسہ بھی آتا ہے کہ یہ لفظ بولنے سے پہلے مجھے اس کا احساس ہوچکا تھا (پھر بھی وہ لفظ منہ سے نکل گیا) تو کیا اس وقت میری بات مکمل ہونے کے انتظار میں ہوتے ہی؟ پھر مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ بے کار دلیل ہے۔ چنانچہ میرے شبہات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میںکبھی اسلام ترک نہیں کرسکتا‘ خواہ مجھے کتنی تکلیفیں دی جائیں۔ تو بات چیت کرتے ہوئے ان لمحات میں کیسے ترک اسلام کے متعلق سوچ سکتا ہوں۔ یہ ایک عجیب احسا س ہے جو مجھے بے چین کئے رکھتا ہے۔ اگر میں اسے نظر انداز کرنا چاہوں تو نہیں کرسکتا۔ کیونکہ دوبارہ شکوک وشبہات سراٹھانے لگتے ہیں۔ اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا میرے لئے غسل کرنا ضروری ہے جس طرح ایک غیر مسلم اسلام میں داخل ہوتے وقت کرتا ہے؟ کیا اس کے بغیر میری نماز درست نہیں ہوگی؟ کیا میرے سابقہ اعمال ضائع ہوجائیں گے جس طرح نعوذ باللہ مرتد ہونے کی صورت میں ضائع ہوجاتے ہیں تو کیا مجھے دوبارہ حج کرنا ہوگا؟
اسی طرح جب مجھے غصہ آتا ہے تو دماغ ایسی سوچوں کی طر ف مائل ہوجاتاہے کہ میں انہیں بیان نہیں کرسکتا۔ پھر فوراًاپنے آپ پر کنٹرول کرتا ہوں اور ان خیالات سے نجات پانے کی کوشش کرتا ہوں تو کیا یہ بھی نعوذ باللہ کفر شمار ہوگا؟
میں نے ایک حدیث میں پڑھا ہے کہ اگرکوئی مسلمان اپنے بھائی کو کافر کہے تو دونوں میں ایک ضرور کافر ہوجاتا ہے۔ کیا اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ اگر وہ کسی کو کافر کہہ دے تو خود کافر ہوگیا یعنی اس پر تمام حکم مرتد والے لگیں گے؟ اگر میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ فلاں شخص کافر ہے لیکن میں زبان سے یہ بات نہ کہوں تو کیا پھر بھی کافر ہوجاؤں گا؟ میں ایک بات بھی پوچھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ لوگوں میں بعض توہمات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً تیرہ(۱۳) کے عدد کو منحوس سمجھنا‘ یا ناخن زمین پر پھینکنے کو نحوست جاننا۔ تو کیا اس قسم کی چیزوں پر یقین رکھنا کفر ہے جب کہ ان پر یقین رکھنے والا باقی تمام امور میں مسلمان ہے اور رسول اللہﷺ کی تمام تعلیمات کو حق مانتا ہے؟ اگر ایسا شخص توبہ کرلے اور ان چیزوں پر یقین کرنا چھوڑ دے تو کیا اس کا حکم اسلام میں نئے سرے سے داخل ہونے کا ہوگا؟ یعنی کیا اسے غسل وغیرہ کرنا ہوگا؟
پھر میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا میرے دل میں پیدا ہونے والے یہ وسوسے اور شکوک وشبہات قابل مؤاخذہ گناہ شمار ہوں گے حالانکہ میں کئی کئی گھنٹے ان میں الجھا رہتا ہوں اور ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میں خط کو اس سے زیادہ طویل نہیں دینا چاہتا اور ان تمام سوالات کا خلاصہ ایک سوال کی صورت میں پیش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ذات کے بارے میں کیسے معلوم کرسکتاہے کہ وہ مرتد ہو گیا یا نہیں؟ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ مرتد جب دوبارہ مسلمان ہونا چاہے تو کیا اس پر غسل فرض ہے جس طرح ایک کافر اسلام میں داخل ہوتے وقت غسل کرتا ہے اگرچہ وہ ارتداد کے دوران جنبی نہ ہوا ہو؟ ایک اور سوال بھی ہے کہ حج زندگی میں ایک بار کرنا فرض ہے سوائے اس کے کہ کوئی انسان نعوذ باللہ مرتد ہوجائے تو کیا کوئی اور صورتیں بھی ہیں جن میں دوبارہ حج کرنا فرض ہوتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) جو شخص مرتد ہوکر اسلام سے نکل جائے‘ اس کے بعد پھر مسلمان ہوجائے تو اس نے حالت اسلام میں جو نیک عمل کئے تھے وہ کالعدم نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢١٧﴾...البقرة
’’تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے پھر کفر کی حالت ہی میں مرجائے تو یہی لوگ ہیں جن کے عمل دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے اوریہی لوگ جہنمی ہیں‘ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔‘‘
(۲)دل میں جو مختلف خیالات اور شیطانی وسوسے آتے ہیں‘ مسلمان سے ان کا مؤاخذہ ہوگا نہ ان کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہوتا ہے جب تک کہ وہ ا سکے دل میں عقیدہ بن کر جا گزیں نہ ہو جائیں۔
(۳)آپ ان برے خیلات اور وسوسوں کو دل ودماغ سے دور کردیں اور ان سے اللہ کی پناہ مانگیں اور کہیں
(آمنْتُ بِالله وَرَسُوْلِه)
’’میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘ اللہ کا ذکر اور قرآن مجید کی تلاوت زیادہ کریں۔ نیک لوگوں کی صحبت میں رہیں اور کسی نفسیاتی امراض کے ڈاکٹر سے اپنا علاج کروائیں۔ حسب استطاعت تقویٰ پر کاربند رہیں اور مشکلات کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں وہ آپ کے تفکرات اور پریشانیاں دور فرمادے گا۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚوَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّـهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ﴿٣﴾...الطلاق
’’ جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لئے (مشکلات سے) نکلنے کی راہ بنادیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان نہیں ہوتا اور جو کوئی اللہ پر توکل کرے توہ وا سے کافی ہے۔ اللہ اپنے کام کو یقینا پایہ تکمیل تک پہنچانے والا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کردیا ہے۔‘‘
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء بخشے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب