السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقے فطانی۔ (جنوبی تھائی لینڈ) میں اس مسئلہ پر بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ میت کے گھر والوں کو آنے والوں کے لئے کھانا تیار کرنا چاہئے یا نہیں۔ براہ کرام اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں۔ اس کے علاوہ یہ دوسرا مسئلہ بھی واضح کریں۔
مکلف کے لئے احکام یہ صورتیں ہیں: واجب، مندوب، جائز، مکروہ، حرام۔ سوال یہ ہے کہ اس شخص کا کیا حکم ہے جو ان پانچ احکام کا انکار کرے یعنی۔
(۱) واجب کو مندوب یا مباح یا مکروہ یا حرام کہے۔
(۲) مندوب کو واجب یا مباح یا مکروہ یا حرام کہے۔
(۳) مباح کو واجب یا مندوب یا مکروہ حرام کہے۔
(۴) مکروہ کو واجب یا مندوب یا مباح حرام کہے۔
(۵) حرام کو واجب یا مندوب یا مکروہ کہے۔
مثال کے طور پر باعمل علماء کا کہنا ہے کہ ’’میت کے گھر والوں کی طرف سے دعوت کا اہتمام مکروہ ہے کیونکہ کھانے کی دعوت خوشی کے موقع پر مشروع ہے غم کے موقع پر نہیں اور یہ ایک قبیح بدعت ہے۔‘‘ اور فرماتے ہیں ’’پہلے‘‘ دوسرے اور تیسرے دن اور ایک ہفتہ کے بعدکھانا کھلانے کااہتمام کرنا مکروہ ہے۔‘‘ نیز فرماتے ہیں۔ ’’چاروں ائمہ کرام کا ا س بات پر اتفا ق ہے کہ میت کے گھر والوں کے لئے کھانے کا اہتمام کرنا،جسے کھانے کے لئے وہ باقاعدہ جمع ہوتے ہیں، مکروہ ہے۔‘‘ اس کے برعکس ہمارے ہاں فطانی کے علاقے کے بہت سے علماء اس کے برعکس کہتے ہیں۔ بعض سنت کہتے ہیں، بعض مباح اور کوئی تو وجوب کاحکم بھی لگادیتا ہے۔ حاجی عبداللہ، حاجی محمد صالح، حاجی عبدالرحمن اور میں‘ مذکورہ بالا باعمل علماء کے قول کے مطابق کہتے ہیں۔ اس اختلاف کی وجہ سے یہاں کے لوگو ںنے ایک دوسرے کو کافر کہنا شروع کر دیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کا ذبح کیا ہوا نہیں کھاتے اور ایک دوسرے سے رشتہ نہیں لیتے۔ اس لئے گذارش ہے کہ ا س مسئلہ میں ایجابی طورپر فتویٰ عنایت فرمائیں اور ہمیں وہ فتویٰ ارسال فرمائیں۔ ہم اسے شائع کرکے لوگوں میں مفت تقسیم کریں گے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کے گھر والو ںکے بجائے دوسرے لوگوں کوکھانا تیار کر کے میت کے گھر والوں کے پاس بھیجنا چاہئے‘ تاکہ ان کی مدد ہو اور ان کے غم کی شدت میں کمی ہو۔ کیونکہ وہ اپنی مصیبت اور تعزیت کے لئے آنے والوں کی وجہ سے اس طرح مشغول ہوتے ہیں کہ اپنے کئے کھانا وغیرہ تیا رنہیں کرسکتے۔ سنن ابی داؤد میں حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور رسول اللہe کو ان کی شہادت کی خبر ملی آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
(اصْنَعُوْا لاَلِ جَعْفَرَ طَعَاماً، فَقَدْ جَائَھُمْ مَا یَشْغَلُھُمْ) (رواه ترمذی فی کتاب الجنائز)
’’جعفرکے گھر والوں کے لئے کھانا تیا ر کرو، کیونک ہان پر ایک مشغول کرنے والی چیز (غم وحزن) آپڑی ہے۔‘‘
یہ حدیث امام احمد‘ ابوداؤد‘ ترمذی اور ابن ماجہ نے بیان کی ہے‘ امام ترمذی نے اس حدیث کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔ باقی رہا میت کے گھر والوں کا کھانا تیار کرنا اور اسے ایک عام رواج بنالینا تو ہماری معلومات کے مطابق ا سکا ثبوت رسول اللہﷺ سے ملتا ہے نہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے‘ بلکہ یہ بدعت ہے لہٰذا اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس رواج میں ایک تو یہ برائی ہے کہ یہ اہل جاہلیت کے غلط رواج سے مشابہت اور رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین کے طریقے کی مخالفت ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کا قول روایت کیا ہے کہ ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میت کے گھر جمع ہونے والے اور دن کے بعد اہل میت کے ہاں آنے والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کو ’’نوحہ‘‘ ہی سمجھتے تھے۔ (یعنی جس طرح نوحہ اور بین کرنا حرام ہے‘ اسی طرح یہ کام بھی صحابہ کی نظر میں حرام تھے) اسی طرح میت کی قبر پر یا وفات کے وقت، یا مت کو گھر سے باہر لے جاتے وقت جانور ذبح کرنا بھی ناجائز ہے۔ امام احمد اور امام ابو داؤد نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
(لاَ عَقْرَ فِی الاِْسْلَامِ)
’’(قبر پر) جانور ذبح کرنا اسلام میں نہیں ہے‘‘ یعنی وفات کے موقع پر جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(۲) ایسا حکم جو کتاب اللہ یا حدیث نبوی کی صریح سے ثابت ہوا اور نص میں تاویل کی گنجائش نہ ہو‘ نہ اس مسئلہ میں اجتہاد کی‘ جو مسلمان اس حکم کی مخالفت کرے‘ یا پختہ ثابت شدہ اجماع کی مخالفت کرے‘ اسے صحیح شرعی حکم بتایا جائے گا۔ اگر قبول کرلے تو بہت بہتر ہے‘ لیکن اگر مسئلہ کی وضاحت اور حجت قائم ہونے کے بعد بھی قبول کرنے سے انکار کرے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تبدیل کرنے پر اصرار کرے‘ تو اس پر کفر کا حکم لگایا جائے اور اس سے مرتدوالا سلوک کیا جائے گا۔ مثلاً اگر کوئی شخص پانچ نمازوں‘ یا ان میں سے کسی ایک نماز کی فرضیت کا انکار کرے‘ یا روزہ ‘حج یا زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے‘ یا ان کی فرضیت ظاہر کرنے والی قرآن وحدیث کی نصوص کی تاویل کرے اور اجماع امت کی پرواہ نہ کرے‘ تو اس پر مذکورہ بلالا حکم لگایاجائے گا۔ اس کے برعکس اگر مسئلہ ایسی دلیل سے ثابت ہو کہ خو د اس دلیل کے ثبوت میں اختلاف ہے یا اس نص کی تشریح میں اختلاف کی گنجائش ہے یا اس مسئلہ میں مختلف دلائل ملتے ہیں (اور ترجیح میں اختلاف ہوجاتا ہے) تو یہ اجتہادی اختلاف ہے۔ اس صورت میں کسی کو کافر نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ اجتہاد میں غلطی کرنے والے کو معذور سمجھا جائے گا اور اسے اجتہاد کا ثواب ملے گا اور جس کا اجتہاد صحیح ہوا وہ قابل تعریف ہے‘ اسے دو ثواب ملیں گے۔ ایک ثواب اس کے اجتہاد کا اور ایک ثواب صحیح مسئلہ سمجھ لینے کا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص مقتدی کے لئے فاتحہ پڑھنا ضروری سمجھتا‘ دوسرا واجب کہتا ہے۔ اسی طرح جس کے ہاں فوتیدگی ہوجائے وہ کھانا تیار کرتا ہے اور لوگ مل کر کھاتے ہیں۔ اسے کوئی مستحب کہتاہے‘ کوئی مباح‘ کو ئی مکروہ۔ ایسی صورت میں دوسرے شخص کو کافر کہنا یا اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے احترازو اجتناب کرنا درست نہیں‘‘ اس سے شادی بیاہ کا تعلق رکھنا منع ہے‘ نہ اس کے ہاتھ ذبح کیا ہوا جانور کھانا حرام ہے۔ اسے نصیحت کرنی چاہئے اور شرعی دلائل کی روشنی میں اس سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔ وہ مسلمان بھائی ہے‘ اسے مسلمانوں والے حقوق حاصل ہیں۔ اس مسئلہ میں اختلاف فروعی اجتہادی اختلاف ہے۔ اس قسم کا اختلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ کے زمانے بھی موجود رہا ہے۔ لیکن انہوں نے ایک دوسرے کو کافر نہیں کہا‘ اور ایک دوسرے سے تعلقات منقطے نہیں کئے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب