السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں اٹھارہ سال کا نوجوان ہوں اور تین سال کا عرصہ ہوا جب میں نے مشت زنی شروع کی تھی۔ میں کبھی تو اس میں نفس کے لیے راحت محسوس کرتا ہوں اور بسا اوقات مجھے ضمیر ملامت کرتا ہے اور میں شرم محسوس کرتا ہوں اور کبھی میں یہ کام کرنے بعد غسل کر لیتا ہوں اور کبھی نہیں کرتا۔ خصوصاً جبکہ سردی کا موسم ہو اور سردی شدید ہو۔ میں یہ نہیں جانتا کہ کتنی نمازیں میں نے غسل کے بغیر پڑھی ہیں۔ اور ۱۴۰۲ہجری رمضان کے مہینہ میں دن کے وقت بھی یہ کام کرتا رہا جبکہ میں روزہ سے ہوتا تھا۔ کیا اس بات کا میری نماز، روزے، پر اثر پڑے گا؟ اور کیا منی پاک ہوتی ہے؟ میں نے ایک حدیث سنی ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ:
((انَّ رَسُولَ الله کانَ قائمًا یُصَلِّی الْفَجْرَ، وکانتْ عائشة تَفْرِکُ الْمَنِیَّ مِنْ ثَوْبِه))
’’رسول اللہﷺ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے کپڑے سے منی کھرچ دیا کرتی تھیں۔‘‘
مجھے جواب سے مستفید فرمائیے اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔ (م۔ع)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عادت سریہ یعنی مشت زنی بہت بری عادات میں سے ہے۔ اور اہل علم بالصراحت اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں:
﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾...المؤمنون
’’اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے مباشرت کرنے سے) انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا کسی اور چیز کے طالب ہوں تو یہی لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘
اور جو شخص اس عادت کو اپنائے رکھے اسے بہت سے نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں اور ایسا کام دوبارہ کرنے سے اجتناب کریں۔ اس عادت بد میں مبتلا رہنے کے دوران آپ پر رمضان کے روزوں کی بھی قضا واجب ہے اور تمام نمازوں کی بھی جو آپ نے بحالت جنابت نہائے بغیر ادا کی ہیں اور آپ کو ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم نہ ہو تو ظن غالب کے مطابق عمل کیجئے۔
رہا منی کے پاک ہونے کا مسئلہ، تو علماء کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق پاک ہے اور جس کپڑے کو لگ جائے اس کو دھونا مستحب ہے۔ یا پھر کھرچ دے۔ حتیٰ کہ اس کا نشان زائل ہو جائے۔ تاہم دھونا افضل ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب