السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک دن ایسا ہوا کہ میرا ایک قریبی رشتہ دار گھبرایا ہوا میرے پاس آکر کہنے لگا۔ ’’عنقریب تم فلاں شخص کی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی سے شادی کرو گے۔‘‘ تو میں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! جب تک دنیا قائم ہے میں اس شخص کی بیٹیوں میں سے کسی سے شادی نہ کروں گا۔‘‘ اس بات کو کئی سال گزر گئے اور پھر میں نے انہی لڑکیوں میں سے ایک سے شادی کر لی اور اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نیک بختی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ میں آپ سے اپنی رہنمائی کی توقع رکھتا ہوں کہ اس سابقہ قسم کے عوض اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ (ع۔ ص ۔ الصبی۔ المدینہ المنورہ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو کچھ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے اگر وہ درست ہے تو آپ پر قسم کا کفارہ لازم ہے اور وہ دس مسکینوں کا کھانا یا ان کی پوشاک یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ کھانا کھلانے کے بارے میں شہر کی خوراک سے نصف صاع واجب ہے خواہ وہ خوراک کھجور ہو یا گندم ہو یا کوئی اور چیز ہو۔ اس کی مقدار ڈیڑھ کلو ہے ۔ اور پوشاک ایسی ہونا واجب ہے جس میں نماز ادا کی جا سکے۔ جیسے قمیص اور تہبند چادر۔ اور جو شخص کھانا کھلانے یا غلہ دینے اور پوشاک دینے اور غلام آزاد کرنے سے عاجز ہو، وہ تین روزے رکھے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ فرماتے ہیں:
﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴿٨٩﴾...المائدة
’’اللہ تمہاری بلا ارادہ قسموں پر مواخذہ نہیں کرے گا۔ لیکن جو قسمیں تم پختہ کر لو (پھر پورا نہ کرو۔) ان پر مواخذہ کرے گا۔ تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو۔ یا ان کو کپڑے دینا، یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسمیں کھا لو (اور اسے پورا نہ کرو) اور تمہیں چاہیے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب