سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(484) رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہاتھوں کو باندھنا

  • 16589
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 725

سوال

(484) رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہاتھوں کو باندھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نمازی رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اپنے ہاتھوں کو باندھ لے۔ ایک مسجد میں ہمارا اس مسئلہ میں اختلا ف ہوا ہمیں فتویٰ دیجئے کہ اس مسئلہ میں صحیح صورت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر وثواب سے نوازے گا۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث جو سھل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کئی دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازی کے لئے حالت قیام میں مشروع یہ ہے کہ وہ اپنے بایئں ہاتھ پر دایئں ہاتھ کو باندھ لے خواہ یہ قیام رکوع سے پہلے ہو یا بعد میں ہو۔ اور بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ افضل یہ ہے کہ ہاتھوں کو سینہ پرباندھا جائے۔

مذکورہ احادیث پر عمل کے مطابق یہی قول مختار ہے۔ جو لوگ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑ دینے کے قائل ہیں ان کے پاس اس مسئلہ میں کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ ہم نے اس موضوع پر ایک مبسوط مقالہ لکھا ہے۔جو بعض مقامی اور غیر مقامی پرچوں میں شائع ہوا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ہاتھوں کو باندھنا یا چھوڑ دینا ان مسائل میں سے نہیں ہے۔ کہ جن کی وجہ سے امت میں اختلاف اور دشمنی پیدا کی جائے۔ بلکہ مسلمانوں کے لئے واجب ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اللہ تعالیٰ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کریں۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کریں خواہ قبض وارسال جیسے فرعی مسائل میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہاتھوں کو باندھنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ جو شخص ہاتھوں کو باندھ کر نماز پڑھے یا چھوڑ کر نمازصحیح ہے۔ البتہ ہاتھوں کو باندھنا افضل اور مشروع ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے مطابق ہے۔

اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آپ کو اورتمام مسلمانوں کو دین میں فقاہت اور ثابت قدمی عطا فرمائے اور ہم سب کو اپنے نفسوں کی شرارتوں برے اعمال اور گمراہ کن فتنوں سے محفوظ رکھے ۔انہ سمیع مجیب (شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 410

محدث فتویٰ

تبصرے