سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(196)عورتوں کا مردوں کو بوسہ دینے کا حکم

  • 16554
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1271

سوال

(196)عورتوں کا مردوں کو بوسہ دینے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں کبھی کبھی چھ ماہ یا سال بعد اپنے گھر اور قبیلہ والوں کے ہاں جایا کرتا ہوں اور جب گھر پہنچتا ہوں تو چھوٹی بڑی سب عورتیں میرا استقبال کرتی ہیں اور شرماتی، لجاتی ہوئی مجھے بوسہ دیتی ہیں… اور حق بات کہنا ہی چاہیے۔ یہ عادت ہمارے ہاں بہت عام ہے اور میرے خاندان والے اپنی رائے کے مطابق یہ ہرگز نہیں سمجھتے کہ وہ کسی حرام کام کا ارتکاب کر رہے ہیں… لیکن میں چونکہ اللہ کی مہربانی سے اسلامی ثقافت کو اپنا رہا ہوں اس کام پر حیران وپریشان رہ جاتا ہوں۔

میرے لیے کیسے ممکن ہے کہ میں عورتوں کے بوسہ دینے کی تلافی کر سکوں۔ جبکہ میں یہ جانتا ہوں کہ اگر میں ان سے صرف مصافحہ کروں تو وہ مجھ پر غضبناک ہو جائیں گی اور کہیں گی کہ یہ ہمارا احترام نہیں کرتا اور ہم سے نفرت کرتا ہے، محبت نہیں کرتا۔‘‘ محبت تو وہ ہوتی ہے جو افراد کو باندھے رکھے، نہ وہ جو نوجوان مرد کو نوجوان عورت سے ملائے۔‘‘

اور اگر میں انہیں بوسہ دوں تو کیا میں گناہ کا مرتکب ہوں گا؟ یہ خیال رہے کہ میں اس میں کوئی بری نیت نہیں رکھتا۔ (محمد۔ ع۔ ا۔ تونس)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی اور دوسری محرمات کے علاوہ کسی عورت سے ہاتھ ملائے یا انہیں بوسہ دے۔ بلکہ یہ بات حرام، فتنہ اور فواحش کے ظہور کا سبب ہے اور نبیﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

((انِّی لَا اُصافحُ النِّسَاء))

’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا۔‘‘

’’اور حضرت عائشه رضى الله عنها فرماتی ہیں کہ بیعت کے دوران رسول اللہﷺ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہ چھوا۔ آپﷺ عورتوں کی بیعت گفتگو سے کیا کرتے تھے۔‘‘

اور غیر محرم عورتوں کو بوسہ دینا تو مصافحہ سے بھی بری چیز ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ چچا کی بیٹیاں ہیں یا ماموں کی بیٹیاں ہیں یا ہمسائیاں ہیں یا قبیلہ کی عورتیں ہیں۔ مسلمانوں کے اجماع کے مطابق یہ کام حرام ہے اور حرام بے حیائیوں کے واقع ہونے کے وسائل میں سے ایک بہت بڑا وسیلہ ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے اس سے بچنا لازم ہے اور ان کاموں کی عادی تمام عورتوں کو اقارب سے اور دوسروں سے پردہ کرنا واجب ہے۔ کیونکہ یہ سب باتیں حرام ہیں۔ اگرچہ لوگ ان کے عادی ہوں اور کسی مسلمان مرد یا عورت کو ایسا کرنا جائز نہیں۔ اگرچہ ان کے رشتہ دار یا اہل وطن ایسا کرنے کے عادی ہوں۔ بلکہ اس کا انکار اور پورے معاشرہ کو اس سے ڈرانا واجب ہے اور مصافحہ یا بوسہ کے بغیر صرف سلام کے ساتھ کلام پر اکتفا کرنا چاہیے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے