السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے حقیقی بھائی نے شادی کی، کچھ عرصہ بعد اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان ایک طویل مباحثہ ہوا، جو اس بات پر منتج ہوا کہ میرے بھائی نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ ’’تجھے طلاق ہے۔‘‘
وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ ایک ہفتہ بعد میرا بھائی ایک قاضی کے ہاں گیا اور پورا قصہ بیان کرنے کے بعد اپنی بیوی سے رجوع کرنے کے بارے میں پوچھا۔ قاضی نے اسے جواب دیا کہ اس کے لیے رجوع کرنا جائز نہیں حالانکہ وہ جانتا تھا کہ یہ پہلی طلاق تھی جو میرے بھائی نے اپنی بیوی کو دی تھی۔
میں اس صورت حال میں فضیلت ماب سے شرعی حکم کی وضاحت کی توقع رکھتا ہوں۔ (غرم۔ ا۔ دمام)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر واقع یہی ہے، جو سائل نے بیان کیا ہے کہ اس کے بھائی نے اپنی بیوی کو صرف ایک ہی طلاق دی اور اس کے علاوہ کوئی طلاق نہیں دی۔ تو جب تک وہ عدت میں ہے اس وقت تک خاوند اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے جبکہ طلاق کسی عوض کے بغیر ہو اور اس کا خاوند اس سے پیشتر اس سے صحبت کر چکا ہو۔
البتہ اگر یہ طلاق عوض والی (خلع) ہو یا وہ عورت غیر مدخولہ ہو تو مراجعت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ معتبر شرعی شرائط کے مطابق اس کا نئے سرے سے نکاح ہو۔
اسی طرح اگر مدخولہ عورت رجوع کرنے سے پیشتر عدت سے نکل جائے تو وہ بھی نئے نکاح کے بغیر حلال نہ ہوگی۔ وہ ایسے ہی ہے جیسے ایک بار طلاق کی مطلقہ ہو یا جیسے عوض پر دو طلاقیں پا چکی ہو۔
اور جو دلائل ہم نے ذکر کیے ہیں وہ معلوم ہیں۔ اس میں ہم نے ایسی کوئی بات ذکر نہیں کی جس میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہو-
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب