عذر کے بغیر نمازوں کوجمع کرکے پڑھناجائز نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘ پھر جب خوف جاتا رہے تو (اس طرح سے ) نماز پڑھو (جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو)بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ)میں اداکرنا فرض ہے۔’’
اور اس لئے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اوقات مقرر کرتے ہوئے ہر نماز کے لئے ایک مخصوص وقت کا تعین فرمایا ہے لہذا کسی شرعی عذر کے بغیر نماز میں تقدیم وتاخیر حدود الٰہی سے تجاوز ہے اور ارشادباری تعالیٰ ہے:
‘‘اورجولوگ اللہ کی حدوں سےباہرنکل جائیں گے،وہ ظالم ہوں گے۔’’
نیز فرمایا:
''اورہ وہ لوگ جو اللہ کی حدود سے باہر نکل جایئں گے '' وہ گناہ گار ہوں گے''
لہذا آدمی کوچاہیے کہ وہ ہرنماز کو اس کے وقت پر ادا کرے لیکن جب ضرورت ہو اور وقت پر پڑھنے میں بہت دشواری ہو تو پھر جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔اس حالت میں آسانی کے مطابق ظہر اور عصر کی نمازوں کو جمع تقدیم وتاخیر دونوں صورتوں میں ادا کرنا جائز ہے۔نیز اس طرح مغرب اور عشاء کی نمازوں کو بھی آسانی کے مطابق جمع تقدیم وتاخیر کی صورت میں ادا کرنا جائز ہے۔جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے کہ:
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر بھی ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازوں کو جمع کر کے ادا فرمایا۔''
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس سلسلے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کا اس سے ارادہ یہ تھا کہ امت کوحرج میں مبتلا نہ کریں۔یعنی ترک جمع کا حکم دے کر امت کو حرج ومشقت میں مبتلا نہ کردیں۔یہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے گویا اشارہ ہے کہ جمع کرنا صرف اسی وقت جائز ہے۔ جب جمع نہ کرنے کی صور ت میں حرج اور مشقت ہو اس حدیث کے یہی معنی ہیں۔ لہذا انسان جب کسی شرعی عذر کے بغیر دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھے گا۔تو یہ نمازیں عند اللہ مقبول اور صحیح نہ ہوں گی۔کیونکہ اس نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کے خلاف یہ عمل کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ ۔۔۔ح :1718۔وصحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب رقم :20)
‘‘جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماراامر نہیں ہے تو وہ مردود ہے’’(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب