السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حج قران اور حج افراد نبیﷺ کے اس حکم سے منسوخ ہو چکے ہیں، جو آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حج تمتع کرنے کے سلسلہ میں دیا تھا۔ اس سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ قول باطل ہے۔ صحت کے لحاظ سے اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ حج تین قسم کا ہے۔ افراد، قران اور تمتع۔ جو شخص حج کرے اس کا احرام باندھنا بھی صحیح اور اس کا حج بھی صحیح ہے اور اس پر کوئی فدیہ نہیں۔ لیکن اگر وہ اس کے بجائے عمرہ کا ارادہ کر لے تو یہ اہل علم کے صحیح تر قول کے مطابق افضل ہے۔ کیونکہ نبیﷺ نے ان لوگوں کو، جنہوں نے حج افراد کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ کو ملا کر قران کا احرام باندھا تھا لیکن ان کے ساتھ قربانی نہ تھی، یہ حکم دیا کہ وہ اس احرام کو عمرہ کا احرام قرار دے لیں۔ پھر طواف اور سعی کریں، بال کتروائیں اور احرام کھول دیں۔ گویا آپﷺ نے ان کے احرام کو باطل نہیں کہا بلکہ انہیں افضل عمل کی راہ دکھلائی۔ چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی کیا۔ یہ کوئی افراد حج کا نسخ نہیں تھا بلکہ یہ تو صرف نبیﷺ کی ایسے عمل کی طرف راہنمائی تھی جو اس سے افضل واکمل تھا… اور توفیق عطا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب