صحیح بات یہ ہے کہ اس صورت میں جب ایک بار ایک سے زیادہ آدمی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوجایئں تو آپ امامت کی نیت کرلیں کیونکہ جماعت مطلوب ہے۔ اور اس میں اجر وثواب بہت زیادہ ہے۔بعض اہل علم کامذہب یہ ہے کہ ایسا کرنا صرف نفل نماز میں جائز ہے۔ جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ فرض اور نفل دونوں میں جائز ہے۔کیونکہ اصول یہ ہے کہ فرض اور نفل اداکرنے والوں کے احکام ایک جیسے ہیں۔الا یہ کہ دلیل سے کسی بات کی تخصیص ہوگئی ہو حدیث سے ثابت ہے کہ:
''نبی کرکریم صلی اللہ علیہ وسلم میمونہ خالہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں رات کوتنہا نماز ادا فرمارہے تھے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے۔انہوں نے وضوء کیا اورآکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بایئں جانب کھڑے ہوگئے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گھما کر اپنے دایئں جانب کھڑا کرلیا اور ان کو نماز پڑھائی ۔''
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے نماز پڑھ رہے تھے کہ جابر اور جبار آئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دایئں اور بایئں جانب صف بنالی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیچھے کھڑا کردیا اور نماز پڑھائی۔''
چنانچہ یہ دونوں حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں۔جو ہم نے زکر کیا ہے جیسا کہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ امام کے ساتھ اگر ایک مقتدی ہو تو وہ امام کی دایئں جانب کھڑا ہو اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہوں تو وہ امام کے پیچھے کھڑے ہوں۔(شیخ ابن بازؒ)ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب