السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کے پاس دکانیں اور ٹیکسیاں ہیں۔ جن کی آمدنی وہ اپنے بال بچوں پر خرچ کر دیتا ہے اور سال بھر میں کچھ بھی بچا نہیں سکتا۔ کیا اس مال میں اس پر زکوٰۃ ہے اور ٹیکسیوں اور دکانوں میں کب زکوٰۃ واجب ہوگی اور اس کی مقدار کیا ہوگی؟ (عبداللہ۔ع)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب یہ دکانیں اور ٹیکسیاں کمائی کا ذریعہ ہوں اور ان کے کرائے سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو تو اس میں زکوٰۃ نہیں۔ مگر جب یہ چیزیں یا ان میں سے کچھ تجارت کے لیے ہوں تو آپ پر زکوٰۃ واجب ہے۔ یہ زکوٰۃ تجارتی قیمت پر ہوگی جبکہ اس پر سال کا عرصہ گزر جائے۔ یہی صورت ان غیر منقولہ جائیدادوں کے کرائیوں کی ہے جو تجارت کے لیے ہوں، جبکہ ان پر سال کا عرصہ گزر جائے اور اگر آپ اس آمدنی کو سال پورا ہونے سے پیشتر گھر کی ضروریات پر یا نیکی کے کاموں پر یا دوسری ضروریات پر خرچ کر ڈالیں تو پھر آپ پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ کیونکہ اس بارے میں جو آیات واحادیث سے دلائل وارد ہیں، ان میں عموم ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب