سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91)دانستہ نماز چھوڑنے کا حکم

  • 16358
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 880

سوال

(91)دانستہ نماز چھوڑنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا بڑا بھائی نماز ادا نہیں کرتا۔ کیا اس سے صلہ رحمی کروں یا نہیں؟ خیال رہے کہ وہ فقط میرا پدری (سوتیلا) بھائی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص دیدہ دانستہ نماز چھوڑتا ہے وہ کافر ہے، علماء کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق اس کا کفر اکبر ہے جبکہ وہ نماز کے وجوب کا اقراری بھی ہو۔ جو شخص نماز کے وجوب کا منکر ہے وہ تمام اہل علم کے نزدیک کافر ہے۔ چنانچہ نبیﷺ نے فرمایا:

((راسُ الاَمْرِ الاسْلَامُ، وعَمُودُہ الصَّلاة، وذِرْوة سنامِه الْجھادُ فی سبیلِ اللّٰه))

’’امور دین کا اصل اسلام (شہادتین) ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی کوہان کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔‘‘

امام احمد اور ترمذی نے اسناد صحیح کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے۔ نیز آپﷺ نے فرمایا:

((بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ تَرْکُ الصَّلَاة))

’’نماز چھوڑنے سے آدمی کا کفر وشرک سے فاصلہ ختم ہو جاتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا ہے۔ نیز آپﷺ نے فرمایا:

((الْعَھْدُ الَّذی بینَنا وبینَھمُ الصَّلاة، فَمَنْ تَرَکَھا فَقَدْ کَفَرَ))

ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان عہد نماز ہے۔ جس نے اسے چھوڑا، وہ کافر ہوا۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد اور اہل السنن نے صحیح اسناد کے ساتھ نکالا ہے۔

تارک نماز اس لیے بھی کافر ہے کہ وہ اللہ، اس کے رسول اور اہل علم وایمان کے اجماع کو جھٹلانے والا ہے۔ لہٰذا اس کا کفر اکبر واعظم ہے۔ بخلاف اس شخص کے جو نماز کو معمولی سمجھتے ہوئے اس کا تارک ہے۔ دونوں صورتوں میں مسلمانوں کے حکام پر لازم ہے کہ وہ تارک نماز سے توبہ کرائیں۔ اگر وہ توبہ کر لے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کر دیا جائے۔ کیونہ اس بارے میں دلائل موجود ہیں۔

نماز کے تارک سے بائیکاٹ لازم ہے اور جب تک وہ اس کام سے باز نہ آئے اس کی دعوت بھی قبول نہ کی جائے۔ تاہم اسے نصیحت کرتے رہنا، حق کی طرف دعوت دینا اور اللہ تعالیٰ کی ان سزاؤں سے ڈرانا لازم ہے جو ترک نماز کی بنا پر دنیا اور آخرت میں مترتب ہوتی ہیں۔ شاید وہ توبہ کر لے اور اللہ اسے معاف فرما دے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے