سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(88)کسی شخص کی نماز کے حوالہ سے شکایت کرنا

  • 16355
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 914

سوال

(88)کسی شخص کی نماز کے حوالہ سے شکایت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ہماری مسجد کے بعض نمازی فجر کی نماز سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ (یعنی جماعت میں شامل نہیں ہوتے) میں انہیں کئی بار نصیحت کر چکا ہوں۔ کیا اب میں محکمہ شرعی امور والوں کو ان کی شکایت کر دوں یا سمجھتا رہوں؟

م۔م۔ ا۔ الریاض


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم آپ کو انہیں سمجھاتے رہنے کی ہی نصیحت کرتے ہیں۔ آپ جماعت کے چند خاص آدمیوں کو ساتھ لے کر ان پیچھے رہنے والوں کے ہاں جائیں اور انہیں نصیحت کریں اور اس عظیم خطرہ سے آگاہ کریں جو نماز باجماعت سے پیچھے رہنے میں ہے اور یہ کہ یہ اہل نفاق کی نشانی ہے۔ شاید وہ مان جائیں اور راہ راست پر آجائیں۔ رسول اللہﷺ کی صحیح حدیث ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

((أَثْقَلَ صَلٰوة عَلَی الْمُنَافِقِینَ صَلٰوة الْعِشَآء وَصَلٰوة الْفَجْرِ وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِیهمَا لَأَتَوْهما وَلَوْ حَبْوًا))

’’منافقوں پر بھاری نماز عشاء اور فجر کی نماز ہے اور اگر وہ جانتے کہ ان دونوں میں کیا (گناہ یا ثواب) ہے تو وہ ضرور مسجد کو آتے خواہ سر  کے بل گھسٹ کر آتے۔‘‘

نیز آپﷺ نے فرمایا:

((مَنْ سمعَ النِّداء فلمْ یاتِ؛ فلا صلاة له اِلاَّ مِنْ عُذر))

’’جس نے اذان کی آواز سنی، پھر مسجد نہ آیا، اس کی نماز ادا نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ کوئی شرعی عذر ہو۔‘‘

آپ سے ایک اندھے آدمی نے اجازت چاہی کہ اسے مسجد میں لانے والا کوئی نہیں۔ کیا اس کے لیے گھر میں نماز ادا کر لینے کی رخصت ہے، تو آپﷺ نے اسے کہا:

((هل تسمعُ النِّداء بالصَّلاة؟ قالَ: نعَمْ قالَ: فأجِبْ))

’’کیا نماز کی اذان سنتے ہو؟ وہ کہنے لگا: ہاں! آپ نے فرمایا: تو پھر بات مانو۔‘‘

اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں تمہارے لیے رخصت نہیں پاتا۔‘‘

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما جو ایک جلیل القدر صحابی تھے، فرماتے ہیں: ’’ہم نے دیکھا کہ ایسے لوگ ہی جماعت سے پیچھے رہتے تھے جن کا نفاق معلوم تھا۔‘‘ یعنی نماز باجماعت سے۔

لہٰذا ہر مسلم پر واجب ہے کہ نماز باجماعت کی محافظت کرے اور اس سے پیچھے رہنے سے بچے اور ائمہ مساجد پر واجب ہے کہ وہ ان پیچھے رہنے والوں کو نصیحت کرتے اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب سے ڈراتے رہیں۔ پھر جب نصیحت کار گر نہ ہو تو ان پیچھے رہنے والوں کا معاملہ مرکز ہیئت کو پہنچا دیا جائے جو مسجد کے محلہ میں ہوتا کہ تعلیمات شرعیہ کی رو سے جو بات لازم ہے اس کے لیے وہ مناسب کارروائی کریں۔

اور ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کو اس بات کی توفیق دے جس میں ان کی صلاح اور اللہ کے غضب اور عذاب سے ان کی نجات ہو۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے