سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67)کیا نمازی فرض نماز میں دعا کرسکتا ہے؟

  • 16334
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 981

سوال

(67)کیا نمازی فرض نماز میں دعا کرسکتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیانمازی کے لیے اپنی فرض نماز میں دعا کرنا جائز ہے؟ مثلا ارکان بجالانے کے بعد جیسے سجدہ میں سبحانَ اللہ کے بعد الّلھمَّ اغْفِرْلی وارْحَمْنِی، وغیْرُ ذلک۔

فہد۔ ع۔ ع۔ الریاض


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مومن کے لیے مشروع ہے کہ وہ اپنی نماز میں دعا کے مقامات پر دعا کرے، خواہ نماز فرض ہویا  نفل ہو۔ نماز میں دعا کے مقامات یہ ہیں ۔ سجدہ میں اور دوسجد وں کے درمیان جلسہ میں اور نماز کے آخری تشہد میں نبیﷺ پر درود پڑھنے کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے جیسا کہ نبیﷺ سے ثا بت ہے کے آپ دنوں سجدوں کے درمیان جلسہ مغفرت طلب کرتے تھے اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ دونوں سجدوں کی درمیان یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

’’ اے اللہ مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے راہ راست پر قائم رکھ ، میری اصلاح فرمائی، مجھے رز ق عطا فرما ‘‘

نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((فَأَمَّا الرُّکُوعُ فَعَظِّمُوْا فِیہه الرَّبَّ عَزَّ وَجَلَّ وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهدُوا فِی الدُّعَآء فَقَمِنٌ أَنْ یُّسْتَجَابَ))

’’ رکوع میں اپنے پرودگار کی عظمت بیان کیا کرو اور سجدہ میں بہت دعا کیا کرو۔ پس لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوجاے‘‘

اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا۔ نیز مسلم ہی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تخریک کی ہے کہ نبی ﷺ  نے فرمایا:

((أقربُ مایکونُ العبدُ من ربَّه وہ و ساجدٌ ، فأکْثِرُوا الدُّعاء))

’’ بندہ اپنے پرودگار کے سب سے زیادہ نزدیک اس وقت ہوتاہے جب وہ سجدہ میں ہو لہٰذا سجدہ میں دعا زیادہ کیا کرو‘‘

اور صحیحین میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبیﷺ  نے انہیں تشہد سکھلایا تو فرمایا: ’ پھر جو سوال تم اللہ سے چاہو کر و‘‘ اور اس معنی میں اور بہت سی احادیث ہیں ، جو ان مقامات میں دعا کی مشروعیت پردلالت کرتی ہیں ، جو دعا بھی مسلمان پسند کرتا ہو، خواہ یہ دعا آخرت سے متعلق ہو یا دنیوی مصالح سے متعلق ہومگر شرط یہ ہے کہ یہ دعا کسی گناہ کے کام اور قطع رحمی سے متعلق نہ ہوا ور افضل یہ ہے کہ اکثر نبیﷺ سے ماثور دعائیں ہی مانگے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے