سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(361) جو شخص امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو

  • 16311
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 837

سوال

(361) جو شخص امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب میں نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے مسجد میں آؤں اور لوگ حالت رکوع میں ہوں۔تو کیا میں تکبیر تحریمہ اور تکبیر رکوع کہہ کر ان کے ساتھ اسی حالت میں داخل ہوجائوں اورکیا دعاء استفتاح پڑھوں یا نہ پڑھوں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زیادہ افضل اورمحتاط بات یہ ہے کہ وہ دو تکبیریں کہے ۔ایک تکبیر تحریمہ جوکہ نماز کا رکن ہے اوراس تکبیر کو کھڑے ہو کر کہنا ضروری ہے اوردوسری تکبیر رکوع کے لئے اس وقت کہے جب وہ رکوع کے لئے جھک رہا ہو اوراگررکعت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوتو علماء کے صحیح قول کے مطابق تکیر تحریمہ ہی کافی ہوگی کیونکہ دونوں عبادتیں بیک وقت جمع ہوگئی ہیں ،لہذا بڑی عبادت چھوٹی سے کفایت کرے گی۔اکثر علماء کے بزدیک رکعت بھی صحیح ہوگی کیونکہ امام بخاریؒ نے ‘‘صحیح ’’میں حضرت ابوبکرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ اس وقت آئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت رکوع میں تھے تو انہوں نے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی رکوع شروع کرلیااوراسی طرح رکوع میں صف میں شامل ہوئے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«زادك الله حرصا ً ولا تعد »(صحيح بخاری)

‘‘اللہ تعالی تمہارے شوق میں اضافہ فرمائے دوبارہ ایسا نہ کرنا ۔''

’’یعنی دوبارہ صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع نہ کرنا بلکہ مسجد میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ وہ صف کے ساتھ مل کر رکوع کرے آپؐ نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو اس رکعت کے دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا ،جس سے معلوم ہوا کہ یہ رکعت ہوگئی۔(1)ایسےنمازی کے حق میں فاتحہ ساقط ہوجائے گی کیونکہ اس کا محل باقی نہ رہا اوروہ قیام ہے ۔جوعلماء مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ فرضیت کے قائل ہیں،ان کے نزدیک اس حدیث کی صحیح توجیہ یہی ہے ۔(شیخ عبد اللہ ابن بازؒ)
1. فضیلۃ الشیخ حضرت مفتی صاحب کی یہ رائے مضبوط دلیل پر مبنی نہیں اس لئے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔وہ تھے لا تعد جس میں کوئی احتمال ہیں۔ایک تو وہی جس کا تذکرہ فاضل مفتی صاحب نے فرمایا ہے کہ آئندہ اس طرح نہ کرنا۔اور دوسرا احتمال ہے (لا تعد) دوڑ کرنہ آنا۔ اورتیسرا احتمال ہے کہ یہ لا تعد ہو یعنی ''اس رکعت کوشمار نہ کرنا''اور چوتھا احتمال یہ ہے کہ لا تعد یعنی تو نماز نہ دہرا تیری نما ز درست ہے۔ اور اصول ہے کہ «اذا جاء احتمال بطل الاستدلال»''جب ایک سے زیادہ احتمال ہوں تو اس سے استدلال جائز نہیں رہتا۔ اس لئے مذکورہ الفاظ سے کسی ایک مفہوم پر استدلال کرنا صحیح نہیں بنا بریں مدرک رکوع کی رکعت کے صحیح ہونے کا فتویٰ دینا بھی غیر صحیح ہے۔کیونکہ مدرک رکوع کے دو رکن فوت ہوئے۔ایک قیام اور دوسرا قراءت فاتحہ اور نماز کا ایک رکن بھی فوت ہوجائے تو وہ رکعت نہیں ہوتی۔تو پھر دو رکوع فوت ہوجانے کے باوجود اس رکعت کا شمار کرنا کسی طرح صحیح ہوگا؟(ص۔ی)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 338

محدث فتویٰ

تبصرے