سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36)اثنائے خطبہ تحیة المسجد کا حکم

  • 16196
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1073

سوال

(36)اثنائے خطبہ تحیة المسجد کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمہوریہ سوڈان کی مسجد (فتنہ) ریفی مروی میں میرے اور بعض نمازی بھائیوں کے درمیان بحث چل نکلی جو مسجد میں داخل ہونے کی دو رکعت نماز کرنے سے متعلق تھی۔ جبکہ امام  خطبہ دے رہا ہو۔… میں اس موضوع پر سماحتہ الشیخ سے فتویٰ ک امید رکھتا ہوں۔… آیا یہ رکعتیں جائز ہیں یا نہیں… اطلاعاعرض ہے کہ اس مسجد عتیق کے نمازی بھائی امام مالک کے مذہب پر(یعنی مالکی )ہیں ؟

ابراہیم۔ م ۔ م۔ ضرماء


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

: مسجد میں داخل ہونے کے وقت سنت یہی ہے کہ داخل ہونے والا دو رکعتیں تحیتہ المسجد اد کرے خواہ امام خطبہ دے رہا ہو کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا:

((إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمْ الْمَسْجِدَ فَلَا یَجْلِسْ حَتَّی یُصَلَّیَ رَکْعَتَیْنِ))

’’ جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرے۔‘ــ‘

اس حدیث کو شیخین نے اپنی اپنی صحیح میں نکالا ہے او رمسلم نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((إذَا جَائَ أَ حَدُکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَة وَالإِ یَخَطُبُ فَلْیُصَلَّ رَکْعَتَیْنِ وَلْیَتَجَوَّزْ فِیِْْمَا))

’’ تم میں کوئی شخص جمعہ کے دن مسجد آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہے کہ دو رکعت ادا کرے اور ان میں اختصار کرے۔‘‘

اور یہ حدیث اس مسئلہ میں صریح نص ہے ۔ لہٰذا کسی کو روا نہیں کہ وہ اس کی مخالفت کرے او رغالبا امام مالک i کو یہ حدیث نہیں پہنچی تھی۔ اس لیے خطبہ کے وقت ان سے دو رکعتوں کی نہی ثابت ہے لیکن جب رسول اللہﷺ کی صحیح حدیث مل جائے توکسی کو یہ جائز نہیں کہ وہ لوگوں کی باتوںمیں آکر سنت کی مخالفت کریں خواہ وہ کون لوگ ہوں۔ کیونکہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴿٥٩﴾...النساء

’’ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں پھر اگر کسی بات میں تم میں جھگڑا پیدا ہوجائے تواللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو، اگر تم اللہ پر اور زور آخرت پر یقین رکھتے ہو ۔ یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام کا ر بھی اچھا ہے۔    

نیز فرمایا:

 وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّه ...﴿١٠﴾...الشورى

 ’’ اور تم جس بات میں اختلاف کرتے ہو ا س کا فیصلہ اللہ کی طرف (سے ہوگا)۔ (الشوری: ۱۰)

اور یہ تومعلوم ہے کہ حکم رسول ﷺ  عزوجل ہی کا حکم ہے جیساکہ اللہ عزوجل ہے فرمایا:

مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه﴿٨٠﴾...النساء

’’ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔‘‘ (النساء: ۸۰)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے