السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم چند دوست اس غرض سے اکٹھے ہوئے کے دینی اور دنیاوی امور بحث مباحثہ کریں۔ حاضرین میں سے ایک نے سوال پیش کیا تھا کہ آیا ایک مسلمان۱۰۰ فی صد ایک مسلمان کی سی زندگی گزار سکتا ہے اور اس پر قائم رہ سکتا ہے جبکہ اس معاملہ میں ایجابی اور سلبی قسم کے اجتماعئی دبائو بھی موجود ہیں۔ یعنی اگر ایک مسلمان ہر اس چیز سے بچنا چاہئے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ہے اور ہر اس چیز سے فائدہ اٹھانا چاہے اس نے حلال کیا ہے۔ یہی صورت سنت نبویﷺ کی ہے کہ وہ اس چیز پر عمل کرے جو مباح ہے او ر منع کر دہ اشیاء سے آیا وہ بچ سکتا ہے؟
اس سوال کے ـمختلف جواب تھے۔ اگر چہ ہر جواب اچھا تھا تاہم جوابات میں اختلاف حالات کے اختلاف سے متعلق تھا۔ ایک فریق یہ کہتا تھا کہ آدمی اس بات پر قادر ہے کہ وہ سوفی صد مسلمان کی سی زندگی گزار سکے۔ جبکہ دوسرا فریق اس بات کی موافقت نہیں کررہا تھا۔ دوسرا فریق جو سو فیصد مسلمانوںکی سی زندگی گزارنے کی موافقت نہیں کر رہا تھا۰ اس کی توجیہ یہ تھی کہ معاشرتی دبائو کئی قسم کے ہیں جن میں سے ہوسکتا ہے کہ بہت سی باتیں نادر ست ہوں تاہم معاشرہ ا نہیں اپنائے ہوے ہے ۔ اس فریق نے اس کی مثال فٹ بال کے کھیل سے دی جس کی حکومت حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ اس کے بجائے اگر نوجوانوں کو گھڑسواری، تیراکی اور تیزاندازی وغیرہ کی ٹریننگ دی جائے تویہ نوجوانوں کے لیے فٹ بال سے بہت زیادہ فائدہ مند ہے ۔
دوسری مثال تصویر کشی اور مجسمہ سازی کی ہے، تیسری مثال انسان کی غذا سے متعلق ہے جوحکومت بیرونی ممالک سے مختلف قسم کی گوشت در آمد کرتی ہے، چوتھی مثال بنکوں کے فوائد ہیں ۔ چنانچہ اور بھی کئی مثالیں پیش کی گئیں ۔ جب یہ مباحثہ طول پکڑا اورہم نے بعض نقاط پر اتفاق کیا اور بعض میں اختلاف کیا تو ہم نے مناسب سمجھا کہ اپنا سوال آپ کو بھیج دیں۔ یہ توقع رکھتے ہوئے کہ شاید آپ کے ہاں سے شافی جواب مل سکے ۔
احمد۔ ع۔ الریاض
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسلم غیرمعصوم ہے اور ہر انسان خطا کار ہے۔ ان خطاکاروں میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جوتوبہ کرنے والے ہیں جیساکہ حدیث شریف میں آیا ہے لیکن اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایک مسلمان اسلامی معاشرہ میں اپنی طاقت کے مطابق عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے دین کی ـمحافظت کرسکے۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں
فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ... ﴿١٦﴾...التغابن
’’ اللہ سے ڈرتے رہو جس قدر تم سے ہو سکے‘‘ (التغابن: ۱۶)
اب اگر اس سے کوئی ایسی خطا سرزد ہو جو اس نے دانستہ نہ کی ہو ، یا اس کے اپنے اختیار کے مطابق ا س کاگمان ہو کہ وہ جائز ہے اور اس کے پاس پوری معلومات نہ ہوں، یا اس نے کسی عالم سے پوچھا ہو اور اس نے ایسا فتویٰ دیا ہو جبکہ اس فتویٰ شریعت مطہرہ کے مطابق نہ ہو تو ان باتوں سے اس کے دین میں کوئی عیب واقع ہوجائے تو سچی توبہ کرنے میں جلدی کرنا اس پر واجب ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب