السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے خاندان میں اولیائے کرام کی قبروں پر بکری کے ذبح کرنے کو تقرب کا ذریعہ بنانے کا دستور چلا آرہا ہے…میں نے انہیں منع کیا لیکن ان میں عناد اور زیادہ بڑھ گیا میں نے انہیں کہاکہ یہ تو اللہ سے شرک ہے وہ کہنے لگے۔ ’’ ہم اللہ کی عبادت کو اسی کا حق سمجھتے اور اسی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اولیاء اللہ کی زیارت کریں یا اپنی دعاؤں میں یوں کہیں کہ اپنے فلاں ولی کے طفیل ہمیں شفا عطا فرما،یافلاں مصیبت کو دور کردے تو اس میں گناہ کی کونسی بات ہے میں نے انہیں کہا، ہمارا دین واسطے کا دین نہیں۔ تو وہ کہنے لگے ہمیں ہمارے حال پر رہنے دو۔‘‘ ایسے لوگوں کے علاج سے متعلق آپ کو ن سا حل بہتر سمجھتے ہیں؟ ان کے مقابلہ میںمجھے کیا کرنا چاہیے اور می ں اس بدعت کا کیسے مقابلہ کروں؟ شکریہ!
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کتاب و سنت کے دلائل سییہ معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ کے علاوہ دوسروں کے لیے قربانی سے تقرب حاصل کرنا‘ خواہ یہ قربانی اولیاء کے لیے ہو یا جنات کے لیے یا بتوں کے لیے ہو یا کسی بھی دوسری مخلوق کے لیے اللہ کے ساتھ شرک ہے اور ایسے اعمال جاہلیت کے اور مشرکین کے اعمال ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَبِّ العـلَمينَ ﴿١٦٢﴾ لا شَريكَ لَهُ وَبِذلِكَ أُمِرتُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ ﴿١٦٣﴾...سورة الانعام
’’ آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز ، میری قربانی ، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرمانبردار ہوں۔‘‘
اور نسک کا معنی قربانی ہے اللہ سبحانہ و تعالی نے اس آیت میںیہ وضاحت فرمائی ہیے کہ غیر اللہ کی قربانی اللہ سے ایسے ہی شرک ہے جیسے غیراللہ کی نماز شرک ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿إِنّا أَعطَينـكَ الكَوثَرَ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانحَر ﴿٢﴾... سورة الكوثر
(اے محمدؐ) ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔
اس سورہ کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا کہ وہ اپنے پروردگار کے لیے نماز ادا کریں اور اسی کے لیے قربانی کریں۔ بخلاف مشرکین کے کہ وہ غیر اللہ کو سجدہ کرنے اور غیر اللہ کے لیے ہی ذبح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے:
﴿وَقَضى رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ...﴿٢٣﴾... سورةالإسراء
’’ اور تمہارے پروردگار نے طے کردیا ہے تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘‘
﴿وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ ... ﴿٥﴾... سورة البينة
’’ اور انہیں حکم تویہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ یکسو ہو کر اللہ عبادت کریں‘‘
اس مضمون کی آیات کثیر ہیں کہ قربانی عبادت ہی ہے الہذا اس میں اللہ تعالی اکیلے کے لیے اخلاص واجب ہے اور صحیح مسلم میں امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لَعَنَ اللّه من ذَبَحَ لِغَیرِ اللّه»
’’ جس نے غیر اللہ کے لیے کی اس پر اللہ نے لعنت کی ہے‘‘
رہی قائل کی یہ بات کہ میں اللہ سے اس کے اولیاء کے حق یا انکی منزلت کے ساتھ یا نبی کے حق یا نبی کی منز لت کے ساتھ سوال کرتا ہوں ، تویہ بات شرک تو نہیں تاہم یہ بات جمہور اہل علم کے نزدیک بدعت اور شرک کا ذریعہ ہے ۔ کیو نکہ دعا عبادت ہے اور اس کی کیفیت تو قیفی امور سے تعلق رکھتی ہے اور ہمارے نبیﷺ سے کوئی ایسی بات ثابت نہیں جو کسی بھی مخلوق کے حق یا منزلت سے توسل کے جو ازیا اس کی مشرو عیت پر دلالت کرتی ہو۔ الہذ ا کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایسا توسل اختراع کرے جو اللہ سبحانہ و تعالی نے مشروع نہیں کیا:
﴿أَم لَهُم شُرَكـؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ... ﴿٢١﴾... سورةالشورىٰ
’’ جس نے ہمارے اس امر (شریعت) میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میںپہلے نہ تھی وہ مردود ہے‘‘
اس حدیث کی صحت پر شخین کا اتفاق ہے اور مسلم کی روایت جسے بخاری نے اپنی صحیح میں تعلیقاذ کر کیا ہے اس کی تاکید کرتی ہے وہ یوں ہے :
«مَنْ أحْدثَ فی أمرِنا هذا لیسَ منه فهو ردٌ»
’’ جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے امر (شریعت) میں موجود نہیں وہ مردود ہے‘‘
رسول اللہﷺ کے قول رد کامعنی یہ ہے کہ وہ کام کرنے والے کے منہ پر مارا جائے گا اور قبول نہیں کیا جائے گا۔لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالی نے مشروع کیا ہے اسی کے پابند رہیں اور جو بدعات لوگوں نے پیدا کر رکھی ہیں ان سے بچیں۔ مشروع توسل صرف یہ ہے کہ اللہ کی ذات اس کی صفات اس کی توحید اور عمال صالحہ سے توسل کیا جائے اللہ تعالی اس کے رسولوں پر ایمان نیز اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اسی طرح کے نیکی اوربھلائی کے کاموں سے توسل کرنا چاہیے…اور عمل کرنے کی توفیق بخشے والا تو اللہ تعالی ہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب