سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(246) زخموں کی صفائی کے لئے اس خو شبو کا استعمال جس میں الکحل کی آمیزش ہو

  • 16140
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1470

سوال

(246) زخموں کی صفائی کے لئے اس خو شبو کا استعمال جس میں الکحل کی آمیزش ہو
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا زخموں وغیرہ کی صفا ئی کے لئے ان عطریا ت و خوشبویا ت کا ظاہری استعمال جا ئز ہے جن میں الکحل کی آمیزش ہو ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کے جواب سے پہلے دو با تو ں کی وضا حت ضروری ہے اولاً: کیا شرا ب نا پا ک ہے یا نہیں ؟اس میں اہل علم کا اختلا ف ہے اکثر کی رائے یہ ہے کہ شرا ب حسی طور پر پر نجس  ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ کپڑے یا جسم کو لگ جا ئے تو اسے دھو کر پا ک کر نا واجب ہے جب کہ بعض اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ شرا ب حسی طور پر نجس نہیں ہے کہ نجا ست کا حسی ہو نا ایک شرعی حکم ہے جسے ثا بت کر نے کے لئےدلیل کی ضرورت ہے اور یہا ں کو ئی دلیل موجو د نہیں لہذا جب اس شرعی دلیل سے شراب کا نا پا ک ہو نا ثا بت نہیں تو معلوم ہو ا کہ یہ پا ک ہے "کو ئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ شرا ب کے نا پا ک ہو نے کی دلیل تو خود کتا ب اللہ  تعالیٰ کی یہ آیت کر یمہ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠﴾... سورة المائدة

"اے ایما ن والو ں!شرا ب اور جوا ء اور بت اور پانسے (یہ سب ) ناپاک کا م اعما ل شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تا کہ نجا ت پاؤ ۔" اور رجس بمعنی نجس ہے اور اس کی دلیل حسب ذیل ارشاد با ر ی ہے :

﴿قُل لا أَجِدُ فى ما أوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلىٰ طاعِمٍ يَطعَمُهُ إِلّا أَن يَكونَ مَيتَةً أَو دَمًا مَسفوحًا أَو لَحمَ خِنزيرٍ فَإِنَّهُ رِجسٌ أَو فِسقًا أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ...﴿١٤٥﴾... سورة الانعام

"کہو کہ جو احکا م مجھ پر نا زل ہو ئے ہیں میں ان میں کو ئی چیز  جسے کھا نے والا کھا ئے حرا م نہیں پا تا بجز اس کے کہ وہ مرا ہو ا جا نور ہو یا بہتا ہو لہو یا سور کا گو شت کہ یہ سب نا پا ک ہیں یا کو ئی گناہ کی چیز ہو  کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نا م لیا گیا ہو ۔" اسآیت سے معلو م ہو ا کہ مردار اور خنزیر کا گو شت  اور دم مسفوح رجس یعنی نجس ہیں رجس کے یہا ں نجس ہو نے کی دلیل یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ جانوروں کی کھالوں کے متعلق  فر ما یا ہے کہ " پا نی انہیں پا ک کر دیتا ہے (يطهرها)"یعنی اسے پا ک کر دیتا ہے یہ اس با ت کی دلیل ہے کہ یہ پہلے نا پا ک تھیں جیسا کہ اہل علم کے ہا ں یہ با ت معلوم ہے لیکن اس با ت کا جوا ب یہ ہے کہ یہا ں رجس سے مراد جس عملی ہے رجس حسی نہیں اور اس کی دلیل یہ الفا ظ ہیں :

﴿رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ... ﴿٩٠﴾... سورة المائدة

"(یہ سب ) نا پا ک کا م اعمال شیطا ن سے ہیں ۔"اور دوسری دلیل یہ ہے کہ جواہ بت اور پا نسے حسی طور پر نجس نہیں ہیں اور چا روں چیزوں کے با ر ے میں خبر ہے اور وہ ہیں (1) شرا ب (2) جوا ء (3) بت اور(4)پانسے تو جب خبر ان چا روں کے متعلق ہے تو حکم بھی ان سب کے متعلق مسا وی ہو گا ۔ جو لو گ یہ کہتے ہیں کہ شرا ب میں حسی طور پر نجس نہیں ہے ان کے پا س ایک دوسری دلیل سنت سے یہ  بھی ہے کہ جب شرا ب کی حرمت کا حکم نا زل ہو ا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرا ب کے برتنوں کے دھو نے کا حکم نہیں دیا ۔حضرات صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی حر مت کے حکم کے نا زل ہو نے کے بعد شرا ب کو با زاروں میں بہا دیا ۔اگر شرا ب نجس ہو تی تو وہ اسے با زا روں میں نہ بہا تے کیو نکہ اس سے بازاروں میں چلنے والو ں کے نا پاک ہو نے کا اندیشہ تھا ،  

ثانیاً:ٍ جب یہ با ت واضح ہو گئی کہ شرا ب حسی طور پر نجس نہیں ہے اور میرے نزدیک  بھی یہی قول راجح ہے تو معلو م ہو کے الکحل بھی حسی طور پر نجس نہیں ہے بلکہ اس کی نجا ست معنوی ہے کیو نکہ اس الکحل سے سکر (نشہ ) پیدا ہو وہ شرا ب ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ(كل مسكر خمر)ہر نشہ آور چیز شرا ب ہے  " (صحیح مسلم کتا ب الا شربۃ با ب بیا ن ان کل خمر حرا م ح  : (2002) اور جب یہ شرا ب ہے تو اکل و شرا ب میں اس کا استعما ل  کہ اسے کسی کھا نے پینے کی چیز میں لا یا جا ئے کہ اس کی تا ثیر اس میں ظاہر ہو تو حرا م ہے اور اس کی حرمت نص اور اجما ع سے ثا بت ہے دیگر امو ر مثلاً جرا ثیم کے خا تمہ وغیرہ کے لئے اس کا استعما ل تو یہ مسئلہ محل نظر ہےاور اجتنا ب ہی میں زیا دہ احتیا ط ہے لیکن میں اسے حرا م نہیں کہہ سکتا اور میں سوائے زخموں کو مند مل کر نے وغیرہ کی ضرورت کے خود استعما ل بھی نہیں کر تا ۔ (شیخ ابن عثیمین )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 265

محدث فتویٰ

تبصرے