سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(144)مسجد کےامام اور مؤذن کے بغیر مسجد کی خدمت ادا نہیں ہو سکتی ان کو تنخواہ دینا لینا ازروئے شرعا جائز ہے ؟

  • 16133
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1215

سوال

(144)مسجد کےامام اور مؤذن کے بغیر مسجد کی خدمت ادا نہیں ہو سکتی ان کو تنخواہ دینا لینا ازروئے شرعا جائز ہے ؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجد کےامام اورمؤذن کےبغیر مسجد کی خدمت ادانہیں ہوسکتی ان کوتنخواہ   دینا لینا ازروئے شرع جائز ہے یا نہیں  ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امامت اوراذان پرماہانہ تنخواہ لینا شرط کرکےامام ابوحنیفہ کےنزدیک ممنوع ہے ’’ لايجوز على الأذان والحج ، كذا الإمامة وتعليم القرآن والفقه ، والأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لايجوز  الاستيجار عليه  عندنا ،، (هدايا ) ’’ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ قَالَ: «آخِرُ مَا عَهِدَ إلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنْ أَتَّخِذَ مُؤَذِّنًا لَا يَأْخُذُ عَلَى أَذَانِهِ أَجْرًا» . رَوَاهُ الْخَمْسَةُ) قال ابن المنذر : ثبت أن رسول  الله صلى الله عليه وسلم  قال لعثمان بن أبى العاص : واتخذ مؤذنا لا ياخذ على أذانه أجرا،  وَأَخْرَجَ ابْنُ حِبَّانَ عَنْ يَحْيَى الْبُكَالِيِّ قَالَ: سَمِعْت رَجُلًا قَالَ لِابْنِ عُمَرَ: إنِّي لَأُحِبّكَ فِي اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: إنِّي لَأَبْغَضُك فِي اللَّهِ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ أُحِبُّك فِي اللَّهِ وَتَبْغَضُنِي فِي اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ إنَّك تَسْأَلُ عَلَى أَذَانِكِ أَجْرًا.وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ: " أَرْبَعٌ لَا يُؤْخَذُ عَلَيْهِنَّ أَجْرٌ: الْأَذَانُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ    وَالْقَضَاءُ      ،، (نيل الاوطار 1/ 157 ) اورمتاخرين  حنفیہ ودیگر ائمہ کےنزدیک امامت واذان پرتنخواہ لینی جائز ہے ۔’’  ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة، والاذان  ويجبر المستاجر على دفع ماقيل ، فيجب المسمى بعقد وأجرالمثل إذا لم يذكر مدة ،،(درمختار ) ميرى نزدیک راجح یہ ہے کہ شرط اورطے کرکےماہانہ مقرر تنخواہ لینا مکروہ ہے،ہاں اگرمؤذن یا امام کوبغیر شرط اورسوال کےبطریق اکرام کےکچھ دےدیا جائےتو اس کاقبول کرناجائز اوربلاکراہت مباح ودرست ہے۔  (محدث دہلی  1938 ء ) 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 236

محدث فتویٰ

تبصرے