سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(124) بریلوی عقیدہ رکھنے والے حنفی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟

  • 16113
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1273

سوال

(124) بریلوی عقیدہ رکھنے والے حنفی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بریلوی عقیدہ رکھنے والے حنفی کےپیچھے نماز جائز ہےیانہیں  ۔ ایک امام دیوبندی عقیدہ رکھتاہےلیکن قومہ اورجلسہ میں دعا نہیں پڑھتا اور اس کےپیچھے اہل حدیث مقتدی اس کی علجت کی وجہ سے قومہ اورجلسہ کی دعائیں نہین پڑھ سکتے ،کیا ایسے امام کےپیچھے نماز ہوجائے گی ؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) کسی بریلو ی حنفی کےپیچھے نماز جائز نہیں کیوں کہ ان کےبعض عقائدواعمال شرکیہ اورکفریہ ہیں ( مثلاً آں حضرت ﷺ کےمتعلق ان کا یہ عقیدہ کہ آپ  کوغیب  کاکلی ......... علم تھا اورآپ ہرجگہ حاضر وناظر ہیں ۔ اوراولیاء اللہ کائنات عالم میں تصرف کی  قوت رکھتےہیں اورتصرف کرتے ہیں اوراہل قبور کی حاجت رواسمجھ کر ان سے استمداد واستعانت اورقبروں اورپیروں کوسجدہ وغیرہ ذلک من العقائد الکفریہ  ) اور شرک وکفر کرنےوالوں کےپیچھے قطعاً نماز جائز نہیں ہے۔  فإنه لا فرق بين الكفرة من اليهود والنصارى والهنادك وبين هولاء القبوريين .

(2)اگریہ دیوبندی امام رکوع سےسراٹھانے کےبعد سیدھا کھڑا ہوجاتا ہےاورسجدہ کےلیے سرجھکانے سےپہلے کچھ توقف کرکے سجدہ میں جاتاہےاورپہلے سجدہ سےسراٹھانے کےبعد بیٹھ جاتا ہےاورقدرت توقف کرکےدوسرے سجدہ میں جاتا ہےتوا س کے پیچھے اہل حدیث کی نماز ہوجائے گی اگرچہ یہ امام بجز تحمید کےقومہ اورجلسہ بین السجدتین کی دعا نہ پڑھے اورنہ اس کی قدرعجلت کی وجہ سے اہل حدیث مقتدی کوپڑھنے کاموقع ملے۔ قومہ میں سیدھا کھڑا ہونا اورسجدہ کےلیے جھکنے سےپہلےاطمینان  اورقدرے توقف کرنااسی طرح دونوں سجدوں کےدرمیان سیدھا بیٹھنا اوراطمینا ن اورکچھ توقف کرنا ، فرض ہے، بغیر اس کےنما  ز صحیح نہیں ہوسکتی،اوران دونوں مقاموں میں دعاء وذکر ضروری نہیں بلکہ سنت ہے۔لیکن تعجب ہےان لوگوں پرجواپنے تیئں اہل حدیث والجماعت کہلوانے کےباوجود ان صحیح حدیثوں پرعمل نہیں کرتے جن میں قومہ اورجلسہ بین السجدتین کارکوع وسجدہ کےقریب ہونا اوران دونوں مقاموں میں دعا وذکر مخصوص  مروی اورمذکور ہے ۔ (بخاری ومسلم عن انس : كتاب الأذان ، باب الإكمانينة حين يرفع رأسه من الركوع 1/193 ، ومسلم  كتاب الصلاة باب  اعتدال أركان الصلاة  (472)1/344) وبراء ابن عازب (بخار ى كتاب الأذان باب حدإتمام الركوع والإعتدال فيه 1/192، مسلم كتاب الصلاة باب إعتدال أركان الصلاة  (471)1/343)، ترمذى ، ابوداؤد ، ابن ماجه عن ابن عباس ( ترمذى : كتاب الصلاة ، باب مايقول بين السجدتين (284)2/76 ابوداؤد : كتاب الصلاة ، باب الدعاء بين السجدتين (850)1/530، ابن ماجه : كتاب إقامة الصلاة ،باب مايقول بين السجدتين (898)1/90). احمد عن ابى هريرة (مسنداحمد ) ، ترمذى ، ابوداؤد ، نسائي عن رفاعة الزرقى : ترمذى كتاب الصلاة باب ماجاء فى وصف الصلاة 302)2/100،ابوداؤد كتاب الصلاة باب صلاة من لايقيم صلبه فى الركوع  والسجود (857- 858)1/536، نسائى كتاب الافتاح باب الرخصة فى ترك الذكر فى الركوع 2/193) ، بخارى ومسلم عن ابى هريرة (بخارى: كتاب الأذان ،باب مايقول الإمام ومن خلفه إذا رفع رأسه من الركوع 1/193 ، مسلم كتاب الصلاة باب اثبات التكبير فى كل خفض ورفع فى الصلاة (393)1/293 ) ، مسلم ترمذى ، ابوداؤد،نسائى ،ابن حبان ، دارقطنى عن على ( مسلم: كتاب صلاة المسافرين ،باب الدعاء فى صلاة الليل وقيامه (1269/532، ترمذى كتاب الصلاة ، باب مايقول الرجل إذا رفع رأسه من الركوع (266)2/53، ابوداؤد ، كتاب الصلاة ، باب مايستفتح به الصلاة من الدعاء (670)1/481-482  ، نسائي كتاب الافتتاح با ب الذكر والدعاء بين التكبير والقراءة 2/ 129، الاحسان بترتيب صحيح ابن حبان 3/187-188،سنن الدارقطنى 1/342) ، اوران حدیثوں کی دعاؤں کی بلا دلیل نفل نماز کےساتھ مخصوص کرکےفرائض میں قصداً دیدہ دانستہ اس سنت ثابتہ کوچھوڑدیتے ہیں ۔لكنه ليس بأول قارورة كسرته فلاعجب فانه قد سول لهم قرينهم ردالسنن الصحيحة الثابتة ، حتى صار ذلك عادتهم فلا يبالون بما يفعلون باحاديث رسول لله صلى الله عليه وسلم اور اگر یہ دیوبندی امام قومہ میں سیدھا کھڑا ہوئے اورکچھ توقف کئے ہوئے بغیر سجدہ میں گرپڑتاہےاورپہلے سجدہ کےبعدسیدھا بیٹھنے اورقدرے توقف کرنے کےبغیر دوسرےسجدہ میں چلا جاتاہے تو اس کےپیچھے نماز جائز نہیں ۔(محدث دہلی ج : ش :8 ذی القعدہ 1360ھ؍دسمبر1941ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 226

محدث فتویٰ

تبصرے