سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(119)خلاف شرع امام بنانا

  • 16108
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 760

سوال

(119)خلاف شرع امام بنانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مولوی صاحب کتاب  نکا ح خواں میں امورمذکورہ خلاف شرع موجود ہیں آیا اس کونماز جنازہ اورنماز پنجگانہ کا امام وغیرہ بناناجائز ہے ؟

(1)  اپنی والدہ کوخوراک وغیرہ نہ دینا اور اس کا

(2)  ایک نکاح کےبعد دوسرا وتیسرا نکاح پڑھنا اور...... کےاخیر تک موجودرہنا

(3)  اپنی عورت کوملزوم زنا کرنا اورزانی کودوست سمجھنا ۔

(4)   اپنے واسطے غیروں سےجھوٹی گواہی عدالت میں دلوانا ۔

(5)  زندہ عورت پرخود کودوست رکھنا۔

جس اس سےان امور کےبارے میں کہا جاتا ہے تووہ یہ جواب دیتا ہےکہ ’’ اقراء باللسان وتصديق بالجنان،،  ’’ إن رحمتى غلبت على غضبى ،، اور ’’ إن الحسنات يذهبن السيئات  ،، (هود : 114) ’’ من قال لا اله الا الله محمد رسول  لله داخل الجنة  ،، (مجمع الزاوائد 1/ 18 ) کی رو سےکوئی حرج نہیں وغیرہ وغیرہ ۔

  سائل : فقیر محمد صالح محمد ، ضلع مظفرگڑھ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس شخص کےاندر امور مذکورہ فی السوال مخالف شریعت موجود ہوں ،وہ اللہ تعالیٰ اوراس کی پیغمبر ﷤والتسلیم کاسخت نافرما ن ، عاصی اورفاسق  ہےبڑا گنہگار اورظالم ہے۔اپنی اس نافرمانی اور فسق وشرارت کی وجہ سےاس لائق نہیں کہ اس کوپنجگانہ نمازیا نماز جنازہ کاامام بنایا جائے ۔

اسلام اورایمان  صرف اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب  کانام نہیں ہے یہ مذہب تومرجئہ کاہے ، جوایک گمراہ فرقہ  ہے ، صحیح یہ ہے کہ ایمان اوراسلام نام ہےتین چیزوں  کےمجموعے کا:

(1)  اقرار باللسان

(2)  تصدیق بالجنان

(3)   عمل بالارکان ۔

یہی مذہب  ہےتمام محدثین کرام اورامام شافعی امام مالک اورامام احمد ک (﷫)،اوریہی ثابت ہےقرآن وحدیث سے، پس معاصی سےپرہیز کرنا اورنیک اعمال کاالتزام فرض اورضروری ولازم ہے۔ حدیث کالفظ صرف اس قدر ’’ من قال لا اله الاالله دخل الجنة ،، مولوی مذکور نے اس کامطلب غلط سمجھا ہے، اصل اورصحیح مطلب یہ ہے کہ : لا الہ الا اللہ اورمحمد رسول اللہ کامعنی اورمطلب سمجھ کراور اس کو دل میں  اتار کراقرار کرنے اوریقین رکھنے والا ، اور اس کلمہ کےمطابق    عمل  کرنے والا ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ کیوں کہ کلمہ طیبہ کامعنی یہ ہے کہ: آسمان اورزمین پرصرف  اللہ تعالیٰ کی خدائی ہےاوراسی کاحکم  وقانون چلتا ہے، اور ہم صرف اسی کےقانون اورحکم پرچلنے کےپابند ہیں ،  اورآں حضرت ﷺ اس کےایلچلی ہیں ، جن کے ذریعہ اس نے اپنی کتاب ہم تک بھیجی اور اپنے  قوانین واحکام نازل فرمائے۔

پس آپ کی رسالت اورنبوت  کااقرار ہم پرفرض کرتا ہے کہ آپ کےلائے ہوئے قانون واحکام  پرچلیں  ، اوراپنی  زندگی آں حضرت  ﷺکی زندگی  کےمطابق گزاریں۔

اگر اس کلمہ کاوہ مطلب ہوتا جواس مولوی نےسمجھا ہے، تونہ کی برائی سےبچنے کی ضرورت ہوتی نہ کسی نیک کام (نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ وغیرہ ) کرنے کی ، اور قرآن وحدیث  میں برائیوں سےبچنے  ،اور نیکیوں کےاختیار کرنے کےتمام احکام وقوانین بےکار ولغو   ہوجانے ،کیوں کہ جب جنت میں داخل ہونے کےلیے صرف کلمہ کاپڑھنا کافی ہے ، تو کیاضرورت ہےعمل کی ۔ بہرکیف اس حدیث سے یہ نہیں ثابت ہوتاکہ کلمہ  کے اقرار کےبعد عمل کی ضرورت نہیں ہے۔کیوں کہ کلمہ اقرار خود ہم پرعمل کولازم  کرتا ہے

(2)’’ إن الحسنات يذهبن السيئات  ،، كااس كى شان  نزول كى مطابق  یہ مطلب ہےکہ اگر کوئی شخص معمول گناہ غلبہ شہوت  کی وجہ سےکربیٹھے مثلا : کسی برائی  عورت کوبری نظر سےدیکھ لے یافقط اس کو بوسہ لےلے، یافقط شہوت سےچھوڑے  ، تونماز وغیرہ جیسی  بڑی نیکیوں کی وجہ سےاللہ تعالیٰ اس گناہ کومعاف کردیں گے۔  بڑے گناہ بغیر توبہ کےمعاف نہیں ہوں گے ۔اس آیت کایہ مطلب  نہیں ہےکہ بئرائی ہرقسم کی ،شوق سےکرواورپھر نماز وغیرہ نیک کام کرلو ساری برائی  معاف ہوجائےگی ۔یہ مطلب تووہی شخص بیان کرے گا جوقرآن وحدیث سےناواقف اورجاہل ہو۔

(3) ’’ إن رحمتى سبقت غضبى ياغلبت غضبى ،،   کا یہ  مطلب ہےکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اوراس کا فضل تمام  مخلوقات کوبلا  منشا کےشامل ہےایک بچے کوپیداہونے کےوقت سے لے کرمرتےدم تک اپنی  رحمت اورفضل سے نوازہ رہتا ہے۔بلا کسی سبب اورمنشا کےیہاں تک کہ کافروں ، ملحدوں ، دھریوں کوبھی رزق دیتا ہے لیکن  اس کے  غضب اورغذاب سزا اورجزا کاتعلق اس کےبندے  کے   اس وقت ہوتاہےجب وہ بالغ ہوکرسرکشی ونافرمانی کرے۔ مولوی مذکور نے اس کامطلب بھی غلط سمجھا ہے اس کوچاہیے کہ کسی بڑے مدرسہ میں قرآن وحدیث کےماہر سےقرآن وحدیث پڑھےاور آیتوں وحدیثوں کاغلط مطلب بیان کرکے لوگوں کوگمراہ نہ کرے۔

   کتبہ عبیدا للہ المبارکفوری الرحمانی  المدرس بمدرسۃ دار الحدیث الرحمانیہ بدہلی

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 217

محدث فتویٰ

تبصرے