سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(101)ایک مسجد کا سامان دوسری مسجد میں لگانا

  • 16090
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1222

سوال

(101)ایک مسجد کا سامان دوسری مسجد میں لگانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگرکسی مسجدکودریا غرقاب کررہا ہواورسب سامان شہتیر وغیرہ بالکل نیاہو،توکیا وہ سامان اکھاڑاجاسکتاہےیانہیں؟ اگر اکھاڑا جا سکتا ہےتودوسری مسجد پرلگانا درست ہےیانہیں ؟ دلائل  واضحہ ہرصورت کےنقل فرمادیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرواقعی اورحقیقی خطرہ ہودریا کےمسجد کوغرق کردینے کا، تواس کی تمام کارآمدچیزیں  اکھاڑنی جائز ہیں ۔ محض احتمال  کافی نہیں ، پھر اگر خطرہ اتفاقی طورپر  ٹل جائے اورباقی نہ رہےتویہ سامان اسی جگہ مسجد تعمیر کرنے میں خرچ کردیا جائے اوراگر دریا اس مسجد کی  زمیں کوکاٹ کراپنے اندرشامل کرلے تویہ سامان دوسری  مسجد پرلگانا درست ہے نھی رسول اللہ ﷺ عن  اضاعة المال (تمام کتب حدیث :  بخاری کتاب الزکاۃ باب لاصدقة الا عن ظهرغنی 2؍ 117 وکتاب الاستقراض باب ماینھی عن اضاعة المال 3؍ 87 ومسلم کتاب  کتاب الاقصضیة باب النھی عن کثرة المسائل من غیرجامعة (1715)3/ 1340 ) اگر کوئی پرانی مسجد ایسی ہوکہ بارش کےزمانہ میں کثرت باراں سےاس  کےمنہدم ہوجانے کاخطرہ ہواورمنہدم ہوجانے کی صورت میں اس کےسامان  کوبرباد ہوجانے کااندیشہ ہوتوا س کےسامان کواکھاڑ کرمحفوظ کرلینا تاکہ ضائع نہ ہواورتاکہ بعدختم ہونےبرسات کےاس کی جدید تعمیر کی جائے  یا اس مسجد کی ضرورت  سےزائد اورفالتو  سامان  کوجس کےیونہی رکھے رہنے سےتلف  ہوجانے کااندریشہ  ہوفروخت کردینا یابغیر فروخت کئےہوئےدوسری مسجد میں لگادینا جائز ہے  وهوالذى يدل عليه حديث عائشة عندمسلم ( كتاب الحج باب نقص الكعبة (1333)2/968 ) قَالَتْ: سَمِعْت رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ: «لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ - أَوْ قَالَ: - بِكُفْرٍ لَأَنْفَقْت كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَجَعَلْت بَابَهَا بِالْأَرْضِ وَلَأَدْخَلْت فِيهَا مِنْ الْحِجْرِ،، والتفصيل فى نيل الاوطار (5/274-275) فارجع اليه  یہی حکم صورت مسئولہ میں مسجد مذکور کاہے ۔ کتبہ عبیداللہ المبارکفوری الرحمانی  المدرس بمدرسۃ دارالحدیث الرحمانیہ بدہلی

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 200

محدث فتویٰ

تبصرے