السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک اہل قریہ نےچندہ جمع کرکے مسجد کی تعمیر ،بعدہ مسجد ٹوٹ جانے کے، دوبارہ بستی والوں نےکچھ چندہ اوربیت المال کےروپیہ سےکچھ اینٹوں کی دیواردےکر اس پرٹین کاگھربنایا۔اب ازروئے شریعت اس میں نماز جائز ہےیا نہیں ؟ زید کہتا ہےکہ بیت المال کاروپیہ ادا کردینے سےنما ز جائز ہوگی۔ اوربکر کہتا ہے کہ جب تک مسجد توڑ کرازسرنو تعمیر نہ جائے ،نماز جائزنہیں ۔کیوں کہ بناء فاسد ہے،قول اول کی بناء پر (یعنی زید کےقول سے) تفریق جماعت کاخطرہ ہے،اور بناء برقول بکر اتحاد بین المسلمین مدنظر ہے؟بینوا تؤجروا. المستفتی : ابوالمحمود عبدالنورحال مقیم پلاش باڑی پوسٹ بنا کوڑی ضلع ، دیناج پور
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسجد میں نماز بلاشبہ جائز ہے،اس کو توڑنے اورمنہدم کرنےکی ضرورت نہیں ہے ،بیت المال میں بالعموم چرم قربانی ، فطرہ ، زکوۃ ، عشرکی رقم جمع رہتی ہے،جن علماء کےنزدیک فطرہ وزکوۃ مصارف زکوۃ " فی سبیل اللہ ،،عام ہے ،جميع وجوه خير بما يعود نفعه الى المسلمين " کوان کےنزدیک فطرہ وزکوۃ وغیرہ تعمیر مسجد کی درست ہے،اوراس میں نماز پڑھنی بلاکراہت جائز ہے،جیسے اس کے علاوہ خالص چندہ کی رقم سےبنی ہوئی مسجد میں نماز درست وجائز ہے۔
اورجن کےنزدیک ’’فی سبیل اللہ ،، صرف جہاد کفار مراد ہے، ان کے نزدیک زکوۃ وعشر وفطرہ سےمسجد کی تعمیر جائز نہیں اوریہی حق وصواب ہے،لیکن ان کےنزدیک یہ جائز ہےکہ بیت المال کی ایک مدکی رقم سےقرض لےکر اس کےدوسرےمد کےمصارف میں (جب اس دوسری مد میں رقم موجود نہ ہواور اس کےمستحق موجوہوں اورانہیں خرچ کرنے کی ضرورت ہو) توصرف کی جائے ،جیسے زکوۃ کی رقم جزیہ کے مصارف میں ۔
پس صورت مسؤلہ میں چند ہ کی رقم کےعلاوہ بیت المال کی جورقم تعمیر مسجد میں خرچ ہوئی ہے،وہ بیت المال سےقرض لینے کےحکم میں متصورہوگی ،اب مصلیان مسجدکوچاہیے کہ چندہ کرکے بیت المال میں اس قدررقم داخل کردیں ، اور مسجد کومنہدم کرکےبیت المال کی رقم کوبرباد نہ کریں ورنہ عنداللہ جواب دہ ہوں گے، زیدکاقول ہےاس پر سب کومتفق ہونا چاہئے ،بکر کاقول صحیح نہیں ہےاس کوبنائے اتفاق نہیں بنانا چاہیے ۔
کتبہ عبیداللہ المبارکفوری الرحمانی المدرس بمدرسۃ دارالحدیث الرحمانہ بدہلی
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب