سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(434) بچے کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟

  • 16065
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1243

سوال

(434) بچے کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شادی کے کچھ عرصہ بعد ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اس سے بچہ لینے کی کوشش کی اب وہ عورت سوال کرتی ہے کہ بچے کی پرورش کا اسے زیادہ حق ہے یا طلاق دینے والے خاوند کو؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مردوں کی بہ نسبت عورتوں کو بچوں کی تربیت و پرورش کا زیادہ حق ہے اس لیے کہ بچوں کے لیے عورتیں ہی زیادہ مشفق اور رحم کرنے والی ہیں اور پرورش و تربیت کے معاملات میں زیادہ صبر کرنے والی اور مشقت برداشت کرنے والی ہیں لہٰذا بالاتفاق بچے یا بچی کی پرورش کا زیادہ حق ماں کو ہی حاصل ہے لیکن یہ شرط ہے کہ اس میں پرورش کرنے کی تمام شروط پائی جائیں ۔ پرورش کرنے والے میں جن شروط کا ہو نا ضروری ہے وہ حسب ذئل ہیں۔

1۔تکلیف : یعنی پرورش کرنے والا مکلف ہو۔

2۔حریت : یعنی وہ آزاد ہو غلام نہ ہو۔

3۔عدالت : یعنی  وہ عادل و دیانتدارہو۔

4۔اگر بچہ مسلمان ہو تو پھر پرورش کرنے والا بھی مسلمان ہو۔

5۔بچے کی ضروریات پوری کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔

6۔عورت نے کسی اور اجنبی مرد سے شادی نہ کی ہو۔

اگر ان شروط میں سے کوئی شرط مفقود ہویا پھر کوئی مانع مثلاً جنون (پاگل پن) یا شادی وغیرہ پیدا ہوجائے تو پرورش کا حق ساقط ہو جائے گا۔

دوسری شادی کرنے تک پرورش کا زیادہ حق ماں کو ہے اس کی دلیل نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی یہ حدیث ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ :

"ایک خاتون رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں آئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  !یہ جو میرا بیٹا ہے میرا پیٹ اس کے لیے برتن تھا میری چھاتی (پستان) اس کے لیے مشکیزہ تھی اور میری آغوش اس کے لیے جائے قرارتھی اس کے والد نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب وہ مجھ سے اس بچے کو بھی چھین لینا چاہتا ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فر مایا جب تک تو دوسرا نکاح نہیں کرتی اس وقت تک تو ہی اس کی زیادہ حق دار ہے۔"( حسن صحیح ابو داؤد 1991کتاب الطلاق باب من احق بالولد ابو داؤد 2276۔دارقطنی 305/3حاکم 207/2بیہقی 5۔4/8۔امام حاکم اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے صحیح کہا ہے)

واضح رہے کہ عورت کا بچے پر زیادہ حق اس وقت تک ہے جب تک بچہ بالغ نہ ہوجائے کیونکہ جب وہ بالغ اور سن تمیز تک پہنچ جائے گا تو پھر اسے اختیار دے دیا جائے گا چاہے تو ماں کے پاس چلا جائے اور چاہے تو باپ کے پاس جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک بچے سے کہا:

"اے لڑکے! یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے ان دونوں میں سے جس کا چاہے ہاتھ پکڑلے۔ پھر اس بچے نے ماں کا ہاتھ پکڑلیا اور وہ اسے لے کر چلتی بنی۔"( صحیح ،ارواء الغلیل 2192۔کتاب الطلاق : باب من احق بالولد ابو داود 2277۔کتاب الطلاق باب من احق بالولد ترمذی 1357۔کتاب الاحکام باب ماجاء فی تخیر الغلام بین ابو بہ اذا فترقا نسائی 3496۔کتاب الطلاق باب اسلام احد الزوجین و تخیر الولد ابن ماجہ 2351کتاب الاحکام باب تخیر الصبی بین ابو بہ احمد 7346۔شاکر مشکل الاثار 176/4۔امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ  اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے (نصب الرایہ 269/3۔تلخیص الخبیر12/4)

اور اگر بچہ خود فیصلہ نہ کرسکے تو قرعہ ڈال لیا جائے کیونکہ یہ بھی مشروع ہے۔( صحیح ،صحیح ابو داؤد 1991کتاب الطلاق باب من احق بالولد ابو داؤد 2277نسائی 185/6۔ابن ابی شیۃ 237/5)

البتہ اس سے بھی زیادہ بہتر یہ ہے کہ بچے کو والدین میں سے اس کی پرورش میں دیا جائے جس کے پاس رہنے میں بچے کی مصلحت ہو یعنی ان میں سے جو زیادہ نیک اور متقی ہو بچے کو اسی کے ساتھ ملحق کر دیا جائے۔(واللہ اعلم) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص523

محدث فتویٰ

تبصرے