جی ہاں جب بچے کو دودھ کی ضرورت ہوتواسے دودھ پلانا واجب ہے فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب تک بچہ رضاعت کی عمر میں دودھ کا محتاج ہواسے دودھ پلانا واجب ہے۔"( الموسوعۃ الفقہیۃ239/22)
اور پھر شرعی حکم کے مطابق بھی رضاعت کا حق ثابت ہے لہٰذا جس پر یہ حق واجب ہواسے یہ ادا کرنا چاہیے اور فقہائے کرام نے بھی یہ صراحت کی ہے کہ رضاعت بچے کا حق ہے اس لیے اس کی ادائیگی لازم ہے۔
علمائے کرام کا اجماع ہے کہ رضاعت کی وجہ سے نکاح حرام ہو جاتا ہے اور دودھ پینے والا دودھ پلانے والی کا محرم بن جاتا ہے اس طرح اسے دیکھنا اور اس کے ساتھ خلوت جائز ہو جاتی البتہ اس کی وجہ سے آپس میں وراثت خرچہ اور ولایت نکاح ثابت نہیں ہوتی۔
اہل علم کے ہاں مستحب یہ ہے کہ کسی اچھی اور بہترین اخلاق والی عورت کا دودھ پلایا جائے کیونکہ رضاعت سے طبیعت میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔بہتر تو یہ ہے کہ والدہ کے علاوہ کسی اور کا دودھ نہ پلایا جائے اس لیے کہ ماں کا دودھ زیادہ نفع مندہے اور اگر بچہ کسی اور عورت کا دودھ پینا قبول نہ کرے تو اس حالت میں والدہ پر اپنا دودھ پلانا واجب ہو جا تا ہے پھر خاص کر اطباء تو ولادت کے بعد ابتدائی مہینوں میں ماں کا دودھ پلانے کی نصیحت کرتے ہیں اور اس پر لوگوں کو ابھارتے ہیں ۔
طبعی رضاعت کے طبی فوائد:۔
طبعی رضاعت کے بہت سے طبی فوائد ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں طبعی رضاعت کا حکم دیتے ہوئےکچھ اس طرح فرمایا ہے۔
"اور مائیں اپنی اولاد کو دو سال کی مکمل مدت تک دودھ پلائیں (یہ اس کے لیے ہے) جو مدت رضاعت مکمل کرنا چاہتا ہے۔"
اس آیت کے نزول کو چودہ سو برس گزر چکے ہیں عالمی تنظیمیں اور کمیٹیاں مثلاً عالمی صحت کی کمیٹی (World Health Organization)آج یہی بیان جاری کر رہی ہے کہ ماں اپنی اولاد کو ضروردودھ پلائے حالانکہ اسلام نے تو اس کا چودہ سو برس قبل ہی حکم دے دیا تھا تو آج کی تحقیق کے مطابق ہمارے سامنے بچے کو دودھ پلانے کے جو فوائد و ثمرات ہیں ان میں سے چند درج ذیل سطور میں ملاحظہ کیجئے ۔
1۔ماں کا ددوھ غذائیت سے بھر پورہوتا ہے جس میں کوئی کسی قسم کا جراثیم نہیں ہوتا۔
2۔ماں کے دودھ سے کوئی اور دودھ مماثلت نہیں رکھتا نہ گائے کا نہ ہی بکری اور اونٹنی وغیرہ کا۔اس لیے کہ ماں کا دودھ قدرتی طور پر بچے کی ولادت سے لے کر دودھ پینے کی مدت ختم ہونے تک ہر روز بچے کی ضرورت کے مطابق بنتا اور تیار ہوتا رہتا ہے۔
3۔ماں کے دودھ میں پرو ٹین اور شوگر کا تناسب بچے کی ضرورت کے مطابق پا یا جاتا ہے لیکن گائے بھینس اور بکری وغیرہ کے دودھ میں پروٹین اتنی مقدار میں ہوتی ہے کہ بچے کا معدہ اسے ہضم کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس لیے کہ یہ دودھ ان حیوانات کی اولاد کی مناسبت سے تیار کیا گیا ہے۔
4۔ماں کا دودھ پینے والے بچے میں نموزیادہ ہوتی ہے اور وہ جلدی بڑا ہوتا ہے جبکہ فیڈر سے دودھ پینے والے بچے اتنی جلدی نہیں بڑھتے۔
5۔ماں اور بچے کے درمیان نفسیاتی تعلق بڑھتا ہے۔
6۔ماں کا دودھ ان مختلف عناصرپر مشتمل ہوتا ہے جو بچے کی غذائی ضروریات اس کے جسم کی کیفیت اور کمیت کے مطابق پوری کرتا ہے اور اس کے نظام ہضم کے مطابق ہوتا ہے اور پھر غذائیت کے یہ عناصر ایک جیسے نہیں رہتے بلکہ بچے کی ضرورت کے مطابق دن بدن بڑھتے رہتے ہیں۔
7۔ماں کا دودھ ایک معقول درجہ حرارت رکھتا ہے جو بچے کی ضرورت پوری کرتا ہے اور کسی بھی وقت حاصل ہوسکتا ہے۔
8۔ماں کا دودھ پلانا منع حمل میں ایک طبعی عامل کی حیثیت رکھتا ہے اور ماں ان سب مشکلات سے سلامتی میں رہتی ہے جو منع حمل کے لیے گولیاں یا پھر انجکشن وغیرہ استعمال کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔(شیخ محمد المنجد)