سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58)کیا محرام الحرام کےاول عشرہ میں شادی کرنا جائز ہے ؟

  • 16017
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 885

سوال

(58)کیا محرام الحرام کےاول عشرہ میں شادی کرنا جائز ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا محرام الحرام کےاول  عشرہ میں شادی ، بیاہ یا کسی قسم کی خوشی یا اس کی دسویں تاریخ کوفاقہ  کرنا ازروئے  شرع جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محرم کے پہلے عشرہ میں  یاپورے مہینے میں بغیر قصد اتباع خوارج ونواصب کےشادی بیاہ یا کوئی  اورتقریب وخوشی کرنی بلاشبہ جائز اورمباح ہے۔قرآن کریم اورحدیث  (صحیح یاضعیف ) تودرکنار ،کسی صحابہ یا امام سےبھی ان دنوں میں شادی بیاہ یاکوئی اورخوشی کرنے کی ممانعت ثابت نہیں ہے،اسی طرح دسویں تاریخ کوفاقہ  کرنا بھی ثابت نہیں ۔البتہ صرف دسویں یانویں دسویں دسویں گیارہویں کوروزہ رکھنا ازروئے احادیث  معتبرہ  ثابت اورباعث اجروثواب ہے۔آخر چہار شنبہ  اورمحرم کےمتعلق ’’ محدث ،، میں متعدد  دفعہ مضامین شائع ہوچکے ہیں ملاحظہ کرلیجئے۔

حضرت حسین ﷜ کی شہادت کےسبب سے دوبدعتیں پیدا ہوگئیں ہیں:

(1)علی ﷜ سےبغض وعداوت رکھنے والوں نےعاشورہ کےدن خوشی اورشادمانی کرنے کی بدعت ایجاد کی ، یہاں تک کہ اس دن خوشی کرنے کی فضیلت کی حدیثیں گھڑڈالیں ۔عاشورہ کےدن سرمہ لگانے ، غسل کرنے ، اہل وعیال پرتوسعہ اورخلاف معمول بہترین اورعمدہ کھانا کومستحب سمجھنے  لگے۔واضح  ہوکہ میرے نزدیک  ’’توسعہ علی العیال ،، والی حدیث (حديث موضوع  ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:’’ من وسع أهله يوم عاشوراء  ، وسع الله عليه سائرسنته،، .

وقال ابن الجوزى فى العلل المتناهية (909/910)2/62،63  والموضوعات الكبرى 2/203:’’ والحديث غير مخفوظ ، ولا يثبت عن رسول الله صلى  الله عليه وسلم،، .

وقال ابن  عراق  فى  تنزيه الشريعة 2/ 152/ 157:’’ قلت  : قال ابن حجر  : منكرجدا.... وأخرجه الدارقطنى  فى الافراد ، وقال : منكر ،، وقال الحافظ  ابن تيمة  فى احاديث  القصاص  : ’’ قال حرب  الكرمانى : سألت  احمد بن حنبل عن الحديث  ....؟فقال:لا أصل له . قلت : وأصله من كلام ابراهيم بن محمد بن المنتشر عن ابيه ، قال : بلغنا  ، ولم يذكر  عمن بلغه ،،.

وقال البانى : ’’ هو حديث ضعيف  من جميع طرقه .... والذين  لا يثبت بالتجربة ،، (مشكوة المصابيح   1/ 603) وقال المباركفورى فى مرعا ة المفاتيح6/36:,, والمعتمد عند ى هو ماذهب  اليه البيهقى ، أن له طرقا يقوى بعضها بعضا ، إن أسانيده الضعيفة أحدثت قوة بالتضام والله تعالى أعلم ،،.) کی صحت اوراسے قابل اعتبار والتفاوت میں تائل وترددہے۔

(2)شیعیان علی ﷜ نے رنج وغم ، جزع وفزع ،ماتم ونوحہ ، گریہ وزاری ،مرثیہ خوانی،سینہ  کوبی  ، فاقہ کشی ، تعزیہ وغیرہ کی بدعت  نکالی اور اس کے متعلق  بےشمار حدیثیں گھرکرامت کوگمراہی میں مبتلا کردیا ہے۔یہ دونوں گروہ اہل ہوا اور اہل بدع سے ہیں ، پس ہمیں نہ شیعیان علی ﷜ کاطریق  اختیار کرنا چاہیے  اورانہ دشمنان علی﷜  کی اتباع واقتداء  ،اور شیعوں کی مخالفت  کےارادہ   اورقصد سےخاص عاشورہ کےدن خوشی منانی چاہیے ۔یہ ارادہ اورنیت نہ ہو توشادی بیاہ اورخوشی کرنی بلاشبہ جائزہے۔

 ( محدث دہلی : 9ش : 4، رجب 1360ھ ؍ اگست 1941ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 157

محدث فتویٰ

تبصرے