سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(406) بچوں پر خرچ کرنے کا حکم

  • 16012
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 942

سوال

(406) بچوں پر خرچ کرنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اولاد پر خرچہ کا کیا حکم ہے اور اس کی کیا حد ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علمائے کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ چھوٹے بچے جن کے پاس مال نہ ہو اس وقت تک ان کی خوراک ولباس کاخرچہ والد کے ذمہ ہے جب تک وہ بالغ نہ ہوجائیں ۔امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:

ہمیں اہل علم میں سے جتنے بھی یاد ہیں ان سب کا اس  پر اجماع ہے کہ ان بچوں کا خرچہ جن کے پاس مال نہیں والد کے ذمہ ہے اور اس لیے بھی کہ اولاد انسان کا ایک حصہ ہے اور والد کے جگر کا ٹکڑا ہے۔لہذا جس طرح اس کا اپنے آپ اور گھر والوں پر خرچ کرنا واجب ہے اسی طرح اپنی اولاد اور ماں باپ پر خرچ کرنا بھی واجب ہے۔(مزید تفصیل کے لیے د یکھئے المغنی لابن قدامۃ(8/171)

علمائے کرام کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ والد پر اس بیتے کا کوئی خرچہ لازم نہیں جس کے پاس مال ہو اور وہ مستغنی ہو،اگرچہ وہ عمر میں چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔البتہ اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ اگر بیٹا فقیر اور بالغ ہولیکن کمانے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو اکثر علماء کاخیال ہے کہ والد کےذمہ اس کا خرچہ لازم نہیں اس لیے کہ وہ کمانے کی طاقت ر کھتا ہے اور کچھ علماء کا کہنا ہے کہ بیٹااگر فقیر اور بالغ ہوخواہ وہ کمانے کی طاقت ہی کیوں نہ رکھتا ہو،والد پر اس کاخرچہ لازم نہیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  سے دریافت کیاگیا کہ:

والدغنی اور مالدار ہو اور اس کا بیٹا فقیر ہو اور کمائی کرنے سے عاجز ہو اور والد مالدار ہوتو بیتے پر اچھے طریقے سے خرچ کرنا لازم ہے۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ(3/363)،(34/105)

علمائے کرام کا اس مسئلے میں بھی اختلاف ہے کہ اگر بیٹی بالغ ہوجائے تو کیاوالد کے ذمہ اس کا خرچہ ہے یا نہیں؟اکثر علمائے کرام کا کہنا ہے کہ شادی تک اس پر خرچہ لازم ہے اور یہی قول زیادہ درست ہے اس لیے کہ وہ کمائی کرنے سے عاجز ہے۔(واللہ اعلم) (مزید  تفصیل کے لیے دیکھئے:الامام لشافعی(8/340) المدونۃ الکبری(2/263) المبسوط(5/223)المغنی لابن قدامۃ(8/171) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص492

محدث فتویٰ

تبصرے