السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زیر نظر علمی مکتوب اس سوال کاجواب ہےکہ عون المعبود 4؍ 209 میں حسب ذیل عبارت کی توجیہ اور اس کاحل کیا ہے ؟ ’’ وقال محمد بن حبان البستي :يتفرد من الثقات بمالا يشبه حديث الثقات ، فلما تحقق ذلك منه ، بطل الا حتجاج به ، وقال ابن عدى الجرجانى : وللوليد بن جميع أحاديث ، وروى عن أبي سلمة عن جابر ، ومنهم من بقول عنه عن أبى سلمة عن أبى سعيد الخدرى حديث الجساسة بطو له، ولايرويه غير والوليد بن جميع هذا خبر ابن صائد،، انتهى،(امام منذرى كاالوليدبن عبدالله بن جميع الزهرى کےبابت پورا کلام مختصر سنن ابی داؤد (6؍181) سےنقل کیا جارہا ہے ۔یہ پوری عبارت سنن ابی داؤد کی کتاب الملاحم باب فی خبر الجساسۃ حدیث نمبر : 4،4328؍5:2 کی شرح وتعلیق کی حصہ ہے۔
’’ فى اسناده الوليد بن عبدالله بن جميع الزهرى الكوفى ، احتج به مسلم فى صحيحه ، وقال الامام احمد ويحى بن معين : ليس به بأس ، وقال عمروبن على: كان يحى بن سعيد لايحدثنا عن ا لوليد بن جميع ، فلما كان قبل وفاته بقليل حدثنا عنه ، وقال محمد بن حبان البستى : تفرد عن الاثبات بما لم يشبه حديث الثقات ، فلما فحش ذلك منه بطل الا احتجاج به –
وذكر ه أبو جعفر العقيلى فى كتاب الضعفاء ، وقال ابن عدى الجرجانى: وللوليدبن جميع أحاديث ، وروى عن أبى سلمة عن جابر ، ومنهم من يقول : عنه عن أبى سلمة عن أبى سعيد الخدرى حديث الجساسة بطوله ، ولا يرويه غير الوليد بن جميع هذا،، (مختصر سنن ابى داؤد للمنذرى 6/ 181).)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عون 4؍ 209 کی مذکورہ عبارت ، حافظ منذری کی مختصر السنن 6؍181سے منقول ہےاور نقل میں دوجگہ غلطی ہوگئی ہے۔
1۔’’فلما فحش ذلک منه ،، کے بجائے ’’ فلما تحقق ، منقول ہوگیا ہے ۔
2۔ آخر میں منذری کاکلام ’’ ولا یرویه غیر الولید بن جمیع هذا، پرختم ہوگیا ہے اس کےبعد دوسر ی سطر میں ’’خبر ابن صائد،، کےعنوان سے حدیث ابن عمر مع سند مذکورہے کے دوسرے نسخوں میں ’’ باب خبر ابن الصائد ،، کےعنوان کے تحت مروی ہے،پس ’’عون ،، کی محولہ عبارت کےآخر میں ’’ ھذا،، کےبعد اور’’ انتھی،، (ای کلام المنذری ) سےپہلے ’’ خبر ابن صائد ،، کا اضافہ غلط ہے۔اس عنوان یاباب کو ’’ ولا یرو یہ غیرالولید جمیع ھذا،، کےساتھ ملاکر اس کومنذری یاابن عدی جرجانی کاکلام بنا دینا صحیح نہیں ہے۔
حدیث مذکورہ پرامام ابوداؤد نےکچھ کلام نہیں کیا ہے۔ان کاسکوت اورولید بن جمیع کےبارے میں ان کا ’’ لیس بہ بأس ،، کہنا اس امر کی دلیل یاعلامت ہے کہ حضرت جابر کی یہ پوری حدیث بروایت ابن جمیع ان کے نزدیک حسن کےدرجہ سےکم نہیں ہے۔البتہ حافظ منذری نے اس روایت پرابوداؤد کی طرح سکوت نہیں کیا،بلکہ اس کی سند میں ابن جمیع کاہونا جوایک متکلم فیہ راوی ہیں ظاہر کرکے اس روایت کےضعیف ووہن کی طرف اشارہ کردیاہے۔
لیکن ابن جمیع کی ابن معین ، ابن سعد ،عجلی نےتوثیق کی ہے۔اورامام احمد ، ابوزرعہ ، ابوداؤد نےان کے بارے میں ’’ لیس بہ بأس ،، کہاہےاور ابوحاتم نے’’ صالح الحدیث،،کہا ہے۔امام مسلم نےاپنی صحیح میں ان کی حدیث کوبطور احتجاج واستناد واستدلال ذکر کیاہےاورحافظ نے ’’ تقریب ،، میں ان کو صدوق ،لکھاہے ۔بزار نے ’’احتملوا حدیثہ،، لکھاہے۔
ابن حبان کاقول ان کےبارےمیں متعارض ہے۔کتاب الثقات اورکتاب الضعفاء دونوں میں ان کوذکر کیا ہے ،گویاان کوثوثیق اورتضعیف دونوں کی ہے۔تضعیف کی وجہ بقول ان کے ’’ تفرد عن الاثبات بمالا یشبہ حدیث الثقات ،، کی کثرت ہے۔ابن حبان کاافراط وتہور معلوم ہے، اس لیے ان کی یہ جرح اگرچہ بظاہر مفسر ہےلیکن غیرمؤثر ہے۔عقیلی نےان کو اپنی ’’کتاب الضعفاء ،، ( 1918؍4؍317) میں ذکر کیاہے۔اور لکھا ہے ’’ فی حدیثہ اضطراب ،، اس سے انہوں نے غالبا اس اختلاف کی طرف اشارہ کیاہےکہ ’’ فضیل بن غزو ان ،، اس حدیث کوابن جمیع عن ابی سلمۃ سےروایت کرتےہیں ،توابو سلمہ کااستاذ حضرت جابر کوبتاتےہیں ،اورابونعیم ابن جمیع عن ابی سلمہ سے روایت کرتےہیں ، توابو سلمہ کااستاذ حضرت ابوسعید خدری کوبتاتے ہیں ، یعنی جمیع کے دوشاگردوں ، ابونعیم اور فضیل کےدرمیان اختلاف ہے۔
اول الذکر نے اس روایت کوابو سعید کی مسندات سےبتایا ہےاورثانی الذکر نےجابر کی مسانید سے، ہمارے نزدیک ا ضطراب و اختلاف کےمورث للضعف ہونے میں کلام ہے۔ہوسکتاہےکہ یہ حدیث دونوں صحابیوں کی مسندات سے ہو۔
منذری کےمنقولہ کلام میں’’حديث الجساسةبطوله،، مفعول بہ ہے’’روی ،،(اى ابن جميع ) عن ابى سلمه عن جابر کا یعنی ابن جمیع نےجساسہ کی طویل حدیث کوابو سلمہ عن جابر سےروایت کیاہے اور بن جمیع کےبعض تلامذہ (وھوابونعیم کمانی فی المیزان )ابن جمیع سے اوپر بجائے عن ابی سلمۃ عن جابر کہنے کےعن ابی سلمہ عن ابی سعید الخدری کہتےہیں۔
’’ولایرویہ غیر الولیدبن جمیع ھذا،، میں ضمیر منصوب مفعول بہ کامرجع بظاہر ’’حدیث الجساسة بطوله ،، معلوم ہوتاہے یعنی حدیث جساسہ کوعن ابی سلمۃ عن جابر سےروایت کرنے میں ابن جمیع متفرد ہیں۔کوئی ان کا متابع اورشرک وموافق نہیں ہے۔اور ایک احتمال یہ ہےکہ کہ اس ضمیر منصوب کامرجع صرف وہ ٹکڑا ہوجوابن جمیع کےساتھی عمربن ابی سلمہ کویاد نہیں رہاتھا۔اورجسے ابن جمیع نےیاد رکھا۔اورعمربن ابی سلمہ کوبتائي۔يعنى شهد (اى اقسم) جابر انه هو ان صائد قلت (قائله ابو سلمة ):فإنه قدمات (اى والدجال ليس بميت بل يجيئ قبل يوم القيامة) قال(اى جابر) وإن مات ،(والتحقيق أنه لم يمت ، بل فقد يوم الحرة ) قلت : فإنه قدأسلم الخ اس احتمال كى بنا پر ’’لایرویه غیرالولید ھذا،، سےاس امر کابیان کرنا مقصود ہوگاکہ خاص’’شھد جابر انہ ابن صیاد ،، الخ کے روایت کرنے میں ابن جمیع متفرد ہیں اور ان کے تفرد کی وجہ سےحدیث ابوسلمہ عن جابر کا صرف یہ ٹکڑا غیرمحفوظ ہے۔بہرحال منذری نےابن جمیع عن ابی سلمہ عن جابر کی اس روایت پر ابو داؤد کی طرح سکوت نہیں کیاہےبلکہ ابن جمیع کےتفرد کی وجہ سےکلام کردیاہے۔
لیکن جب یہ پوری طویل حدیث یاصرف اس کا ٹکڑا’’شهد جابر أنه هو ابن صائد قلت:فإنه قدمات،،الخ کسی دوسرے ثقہ یااوثق کی روایت کےمعارض اورمخالف نہیں ہے،بلکہ فاطمہ بنت قیس کی حدیث اس کی مؤید ہےاورمذکورہ ٹکڑے کی توجیہ ہو جاتی ہےاورابن جمیع ’’صدوق،، اور’’لابأس به،، اور’’ صالح الحدیث،، بلکہ ’’ثقہ ،، راوی ہیں۔اوراس پوری حدیث یامذکورہ ٹکڑے کی روایت کرنے میں ان کاوہم یانسیان وغفلت یاخطا ثابت ومتحقق نہیں ہےتومحض ان کے تفرد کی وجہ سےاس حدیث پریااس کےمذکورہ ٹکڑے پرکلام وجرح کرنا مخدوش ہے۔ ھذاماظھر لی واللہ اعلم.
عبیداللہ رحمانی مبارک پوری (نقوش شیخ رحمانی ص:66؍70)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب