اگرخلع حاصل کرنے والی عورت حاملہ ہوتو علماء کے اجماع کے ساتھ اس کی عدت وضع حمل ہے۔( المغنی لابن قدامہ(11/227)
لیکن اگر وہ حاملہ نہیں تو اس کی عدت میں اہل علم کا اختلاف ہے اکثر اہل علم کا تو یہ کہناہے کہ وہ تین حیض عدت گزارے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا عموم اسی پر دلالت کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک عدت گزاریں۔"
مگر صحیح قول یہ ہے کہ خلع حاصل کرنے والی عورت ایک حیض عدت گزارے گی ،اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو بھی خلع حاصل کرنے کے بعد ایک حیض عدت گزارنے کا حکم فرمایا تھا۔ (صحیح:صحیح ترمذی(946) ابو داود(2229)کتاب الطلاق باب فی الخلع ترمذی(1186) کتاب الطلاق اللعان باب ماجاء فی الخلع)
اوریہ حدیث مذکورہ بالاآیت کی تخصیص کردیتی ہے اس لیے اسی پر عمل کیاجائے گا۔
علاوہ ازیں اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ نئے نکاح کے ساتھ دوبارہ شادی کرکے اکھٹے ہوجائیں۔(شیخ عبدالکریم)
خلع کے بعد میاں بیوی کے دوبارہ اکھٹے ہونے کے بارے میں سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی سے دریافت کای گیا تو اس کا جواب تھا:
ان دونوں کے لیے نئے مہر،نئے نکاح ،عورت کی رضا مندی اور دیگر مکمل شرائط نکاح وارکان نکاح کے ساتھ اکھٹے ہونا جائز اور درست ہے۔کیونکہ خلع کو بینونہ صغریٰ(چھوٹی جدائی) شمار کیا جاتاہے کہ جس کی وجہ سے شوہر ہمیشہ کے لیے عورت سے جدا نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ کے لیے جدائی تیسری طلاق کے بعد ہوتی ہے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)