بیوی معاوضہ دے کر علیحدہ ہوجائے تو اسے خلع کہا جاتاہے۔اس طرح خاوند بیوی سے معاوضہ لے کر اسے چھوڑ دیتاہے خواہ وہ معاوضہ شوہرکا دیا ہوا مہر ہو یا کچھ اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
"اور تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لے لو مگر یہ کہ وہ دونوں اس سے خوف زدہ ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اس کا فدیہ دیں۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
"ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کےرسول( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے ان کے اخلاق او دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں۔البتہ میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں(کیونکہ ان کے سا تھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت ادا نہیں کرسکتی) اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا،کیا تم ان کا باغ(جو انھوں نے بطور مہر دیا تھا) وا پس کرسکتی ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے فرمایاکہ باغ قبول کرلو اور انہیں طلاق دے دو۔"( بخاری(5273) کتاب الطلاق باب الخلع وکیف الطلاق فیہ نسائی(6/169) ابن ماجہ(2056) کتاب الطلاق باب المختلعۃ تاخذ ما اعطا ھادارقطنی(4/46) بیہقی(7/313)
علمائے کرام نے اس قصے سے یہ استنباط کیا ہے کہ جب عورت اپنے خاوند کے ساتھ رہنے کی طاقت نہ رکھے تو حکمران اس سے خلع طلب کرلے بلکہ اسے خلع کاحکم دے۔
خلع کی صورت یہ ہے کہ خاوند بیوی کو چھوڑنے کے عوض کچھ لے یاپھر وہ کسی عوض پر متفق ہوجائیں اور پھر خاوند اپنی بیوی کو کہے کہ میں نے تجھے چھوڑ دیایا خلع کرلیا اور اس طرح کے دوسرے الفاظ کہے۔
اور طلاق خاوند کا حق ہے یہ اس وقت تک واقع نہیں ہوسکتی جب تک وہ طلاق نہ دے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"طلاق صرف اس کا حق ہے جس نے پنڈلی کو تھام رکھا ہے(یعنی خاوند کا)۔"( حسن صحیح الجامع الصغیر(3958) ارواء الغلیل(2041) ابن ماجہ(2081) کتاب الطلاق باب طلاق العبد)
اسی لیے علمائے کرام نے یہ کہا ہے کہ جسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر ظلماً مجبور کیا جائے اور وہ طلاق دے دے تو اس کی یہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔( المغنی لابن قدامۃ(10/352)
اور آپ نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ بیوی حکومتی قوانین کے مطابق اپنے آپ کو طلاق دے دے تو اس کے بارے میں ہم کہیں گے کہااگرتو یہ کسی ایسے سبب کی بنا پر ہے جس کی وجہ سے طلاق مباح ہوجاتی ہے مثلاً اگر وہ خاوند کو ناپسند کرنے لگے اور اس کے ساتھ زندگی نہ گزار سکے یا خاوند کے فسق وفجور اور حرام کام کے مرتکب ہونے کی وجہ سے اسے ناپسند کرنے لگے تو اسے طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ایسی حالت میں وہ خاوند سے خلع کرلے اور اس کا دیا ہوا مہر واپس کردے۔اور اگر وہ طلاق کا مطالبہ کسی سبب کے بغیر کرے تو ایسا کرنا اس کےلیے جائز نہیں اور اس حالت میں عدالت کا طلاق کے متعلق فیصلہ شرعی نہیں ہوگا بلکہ بدستور عورت اس آدمی کی بیوی ہی رہے گی۔تو یہاں ایک مشکل پیش آتی ہے کہ قانونی طور پر تو یہ عورت مطلقہ شمار ہوگی اور عدت گزرنے کے بعد کہیں اور شادی کرلے گی لیکن حقیقت میں بیوی کو طلاق ہوئی ہی نہیں۔
شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ نے اس جیسے مسئلے کے متعلق کچھ اس طرح کہا ہے:
ہمارے سامنے یہ شکل ہے کہ عورت کا کسی آدمی کو زوجیت میں رہتے ہوئے کہیں اور شادی کرلیناجو کہ حرام ہے۔ظاہری طور پر عدالت کے حکم کے مطابق اسے طلاق تو ہوچکی ہے اور جب عدت ختم ہوجائے تو وہ کہیں اور شادی کرسکتی ہے۔(لیکن فی الحقیقت لا علمی میں وہ حرام کاری میں مبتلا ہورہی ہے)۔
لہذا میری رائے یہ ہے کہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اہل خیر اور اصلاح کرانے والے لوگ ضرور اس مسئلے میں دخل دیں تاکہ خاوند اور بیوی کے درمیان صلح ہوسکے اور اگر یہ ممکن نہیں تو وہ اپنے خاوند کوعوض ادا کرکے شرعی طور پر خلع لےلے۔(شیخ محمد المنجد)