مرد نے تین مرتبہ اپنی بیوی کو چھوڑااور باہر گھرسے نکل جاتا ہے لیکن منہ سے کچھ نہیں کہتا اور نہ ہی طلاق کا اشارہ کرتا ہےدوسری بار گھر سے باہر جانے کے بعد بیوی کو خط موصول ہوا جس میں خاوند کے گھر واپس آنے کی شروط تھیں اس میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اگر اس نے ان شرائط پر عمل نہ کیا تو وہ اسے طلاق دے دے گا۔
توکیا پہلی دوبار بیوی کو چھوڑنا طلاق شمار ہو گا؟
اور کیا یہ دونوں علیحدہ علیحدہ طلاقیں شمار ہوں گی؟
یہ علم میں ہو نا چاہیے کہ بیوی کو اس کا کچھ علم نہیں کہ یہ طلاق شمار ہوگی اور تیسری مرتبہ تو طلاق واضح تھی اس وقت خاوند دل کا مریض ہے اور علاج کروارہا ہے بیوی یہ محسوس کرتی ہے کہ یہ سب کچھ اس کی سوچ اور غم کی بنا پر ہے وہ اب بھی اس کی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہے اور اس کا اہتمام بھی کرتی ہے لیکن امام صاحب کے قول کے مطابق تین طلاقیں مکمل ہو چکی ہیں تو کیا واقعی تین طلاقیں پوری ہوچکی ہیں؟صرف نیت سے ہی طلاق نہیں ہوتی بلکہ طلاق دوچیزوں میں سے ایک کے ساتھ ہوتی ہے یا تو زبان سے کلام کرنے سے یا پھر لکھنے سے۔( دیکھیں : فتاوی الطلاق لا بن باز ص/ 54۔53)
اس بنا پر پہلی اور دوسری مرتبہ طلاق کا وقوع نہیں ہوا اس لیے کہ خاوند نے نہ تو طلاق کی بات کی اور نہ ہی اس کے متعلق لکھا اور تیسری مرتبہ کے متعلق گزارش ہے کہ آپ نے جو ذکر کیا ہے کہ اس نے لکھا تھا "اگرشروط پوری نہ کی گئیں تو وہ طلاق دے دے گا"یہ بھی طلاق شمار نہیں ہوگی بلکہ یہ تو طلاق کا ڈراواہے۔ اس لیے اگر ان شرائط کو پورا کردیا گیا ہو یا پورا نہ کیا گیاہو۔دونوں صورتوں میں طلاق نہیں ہوئی اس لیے کہ صرف ڈراوے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔( فتاوی الطلاق لابن باز ص/56) (شیخ ابن باز)