طلاق کے لیے یہ کوئی شرط نہیں کہ خاوند ا پنی بیوی کے سامنے طلاق کے الفاظ کہے اور نہ ہی یہ شرط ہے کہ بیوی کو اس کا علم ہو۔جب کبھی آدمی نے طلاق کے الفاظ بولے یا طلاق لکھ دی تو طلاق صحیح ہوگی اگرچہ اس کا بیوی کو علم نہ بھی ہو۔اگر آپ کے خاوند نے طلاق کے سارے معاملات وکیل کے پاس مکمل کیے ہیں تو یہ طلاق صحیح ہے اور واقع ہوچکی ہے۔
شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ:
ایک آدمی اپنی بیوی سے لمبے عرصے تک غائب رہا اور اسے طلاق دے دی جس کا علم صرف اسے ہی ہے اور اگر وہ اپنی بیوی کو نہ بھی بتائے تو کیا یہ طلاق واقع ہوجائے گی؟شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا جواب تھا:
طلاق واقع ہوجائے گی اگرچہ وہ اپنی بیوی کو اس کا نہ بھی بتائے۔اگر کوئی آدمی یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس سے اس کی بیوی کو طلاق ہوجائےگی خواہ بیوی کو اس کا علم ہویا نہ ہو۔اس بنا پر فرج کریں کہ اگر عورت کوطلاق کا علم تین حیض گزرجانے کے بعد ہوتو اس کی عدت پوری ہوچکی ہوگی حالانکہ اسے اس کا علم ہی نہیں تھا۔اسی طرح اگر کوئی آدمی فوت ہوجائے اور اس کی بیوی کو خاوند کی وفات کا علم عدت گزرنے کے بعد ہوتو اس پر کوئی عدت نہیں،اس لیے کہ عدت کی مدت تو پہلے ہی گزر چکی ہے۔( دیکھئے فتاویٰ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ (2/804) (شیخ محمد المنجد)