جب کوئی شخص مالی اور بدنی طور پر شادی اور عدل وانصاف کرنے کی طاقت رکھتا ہو تواس کے لیے دوسری شادی کرناجائز ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو دو دو ،تین تین ،اور چار چار سے لیکن اگر تمھیں عدل نہ کرسکنے کا خوف ہوتو ایک ہی کافی ہے۔"(النساء)
اور سنت میں اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا فعل ہے۔لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کے لیے چار بیویوں سے زیادہ رکھنا جائز نہیں۔اور یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کی طبعیت بہت ہی غیرت والی ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتی کہ اس کے علاوہ کوئی بھی اور عورت اس کے خاوند میں اسکے ساتھ شریک ہو اور خاوند کی محبت تقسیم ہوکررہ جائے اور عورت کے اندر اس غیرت کا پایا جانا کوئی ملامت والی بات نہیں ،کیونکہ یہ غیرت تو سب سے بہتر اور اچھی عورتوں(یعنی امہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین اور صحابیات رضوان اللہ عنھن اجمعین )کے اندر بھی پائی جاتی تھی۔لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ غیرت اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ اللہ تعالیٰ کی مشروع کردہ چیز پر بھی اعتراض کرنے لگ جائے،بلکہ عورت کوتو چاہیے کہ وہ اس سے اپنے شوہر کو مت روکے کیونکہ یہ تواس کا نیکی اور بھلائی کے کام میں تعاون ہوگا،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کاتعاون کرو۔"
سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی سے اس کے متعلق دریافت کیاگیا تو ان کا جواب تھا:
خاوند اگر دوسری شادی کرنا چاہے تو اس پر کوئی ضروری نہیں کہ وہ پہلی بیوی کو راضی کرے،لیکن اخلاقی طور پر اسے ایسا کرنا چاہیے اور یہ حسن معاشرت بھی ہے کہ پہلی بیوی کا خیال رکھے جس سے اس کی تکلیف کم ہو کیونکہ یہ عورتوں کی طبیعت میں شامل ہے۔کہ اس طرح کے معاملات میں بہت زیادہ تکلیف محسوس کرتی ہیں۔
اور جب خاوند دوسری شادی کرنا چاہے اور پہلی بیوی طلاق کا مطالبہ کرے تو یہ غلط ہے۔اسے چاہیے کہ حالات کو دیکھے اوراگر وہ دوسری بیوی کےہوتے ہوئے وہ زندگی نہیں گزارسکتی تو وہ خلع حاصل کرلے اور اگر وہ خاوند کےساتھ رہ سکتی ہے لیکن وہ کچھ تکلیف اور تنگی محسوس کرتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس پر صبر کرے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو کوئی عورت بغیر کسی ضرورت کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے(یعنی وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گی۔)"( صحیح ارواءالغلیل(2035) صحیح الجامع الصغیر(2706)ابوداود(2226) کتاب الطلاق باب فی الخلع ترمذی(1187) کتاب الطلاق واللعان باب ماجاء فی المختلعات ابن ماجہ (2055)کتاب الطلاق باب کراھیۃ الخلع المراۃ احمد(5/277) دارمی(2/162) ابن الجارود(748) ابن حبان(4184) بیہقی(7/316)
اور اگر وہ صبر کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد فرمائے گا اور اسے اس کا اچھا بدلہ عطا فرمائے گا اور خاوندپر بھی ضروری ہے کہ وہ اس کے معاملات بھی اچھے طریقے سے نبھائے اور اس کے ساتھ صبر میں شریک ہو اور اگر اس سے کچھ کمی ہوتاہی سرزد ہوجائے تو اس پر صبر کرنا ہواسے معاف کردے۔اللہ تعالیٰ ہی توفیق بخشنے والا ہے۔(شیخ محمد المنجد)