سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42)سلام بن ابی الحقیق کو خیبر میں عبداللہ انصاری نےرسول اللہ ﷺ کے ایماء پر قتل کرنا

  • 15897
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2064

سوال

(42)سلام بن ابی الحقیق کو خیبر میں عبداللہ انصاری نےرسول اللہ ﷺ کے ایماء پر قتل کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سلام بن ابی الحقیق کو خیبر میں عبداللہ انصاری ﷜ نےرسول اللہ  ﷺ کے ایماء پر قتل  کیا ۔کیا یہ قتل  جائز تھا؟

کیونکہ  کہ حالت امن میں ہویا حالت جنگ میں ہوا ۔ان دونوں روایتوں پر’’ طلوع اسلام ،، دہلی نےسخت اعتراض کیا ہے کیونکہ کہ اس کی نظر میں یہ دونوں اوپر والے واقعات جھوٹے ہیں۔

عبارت ’’ طلوع اسلام ،، جلد : 3 شمارہ : ذوالحجہ  1358 ھ ، مطابق  فروری  1940 ء :

’’ خلفاء بنی امیہ وبنی عباسیہ کاایک دستور یہ بھی تھا کہ کبھی کبھی وہ اپنے دشمنوں کومخفی تدبیروں سے قتل کردیا کرتے تھے ، اور اس کواپنی  بساط سیاست کی ایک اچھی  چال سمجھتے تھے۔اس وجہ سے ان کےحامیوں اور خاشیہ نیشینوں نے ایسی روایتیں بنائیں کہ اس قسم کے قتل کو رسالت مآب کا فعل  ثابت کردیں ،تاکہ ان سلاطین کواپنی کارروائیوں کےجواز کی سند مل جائے ۔ اس کتا ب میں یہ رواایتیں درح ہیں۔

ص : 44 پر کعب بن اشرف کےمتعلق لکھا ہےکہ آں حضرت ﷺ نے اس کے قتل کی خدمت محمدبن مسلمہ ﷜ کے سپرد کی ۔ جنہوں نے اس کے گھر جاکر بلطائف  الحیل ا س کوقتل کرڈالا ۔پھر ص : 54 میں سلام بن ابی الحقیق  کی بابت لکھتے ہیں کہ آں حضرت ﷺ کےایماء سے ایک انصاری عبداللہ ﷜ نےخیبر میں جاکر اس کوقتل کردیا ۔ان مکذوب اورمکروہ روایات کی بنا پر رحمۃ اللعالمین پرخفیہ کرانے کا الزام وہی شخص رکھے گا ، جوتنقیدی عقل سے عاری اور راویوں کی دسسیہ کا ری اورمقام نبوت سے قطعا نا آشنا ہو۔،، 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واقعہ قتل ابورافع سلام بن ابی الحقیق رمضان  6ھ

ماخوذ از صحیح بخاری  (کتاب المغازی  باب قتل ابی رافع  5؍ 26)و فتح الباری  ( 4049 )7؍340 ، وطبقات ابن سعد ( 2؍ 91) وسیرۃ حلبیہ  ودیگر کتب سیرومغازی   ، ابو رافع سلام یہودی خیبر کےایک قلعہ میں رہتا تھا اور  ’’رئیس التجار ،، و ’’ تاجر الحجاز  ،، کےلقب سےمشہور تھا، یہ بھی آں خضرتﷺ کےبے حد اذیتیں پہنچاتا تھا ۔غطفان اوردوسرے قبیلوں کےآں حضرت ﷺ سےجنگ کرنے پربرانگیختہ کیا تھا  اور بے شمار مال و دولت  سے ان کی آپ  ﷺ کےخلاف جنگ میں مدد کی تھی ۔غزوہ خندق کےموقعہ پر عرب کےبڑے  بڑے  مشہور قبائل کی مدینہ پرحملہ کرنے کےلیے اسی نے ابھاراتھا۔اس کی ان فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے چند خزرجی  انصاریوں کی خواہش پرآپ ﷺ نےعبداللہ بن عتیک انصاری ﷜ وغیرہ  پانچ چھ آدمیوں کی اس کےقتل کرنے کےلیے بھیج دیا  کہ کسی عورت اوربچے کوہرگز نہ قتل کرنا۔یہ لوگ شام کوخیبر گئے ۔ عبداللہ یہودیوں کی زبان سےواقف تھے۔ ساتھیوں کوقلعہ سےباہر رہنے کا حکم دیا اور خود قلعہ میں داخل ہوگئے ۔جب رات زیادہ گزرگئی اوراسلام کے مصاحب اپنے اپنے اور گھروں میں چلے گئے اور وہ اپنے بالاخانہ میں کواڑ بند کرکے بیوی یچوں کےساتھ سورہا تھا ، تو عبداللہ نےاس کے بالاخانہ کا دروازہ کھٹ کھٹایا ۔سلام کی بیوی نےپوچھا کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا ۔اس کی بیوی نےسلام سےکہا یہ آواز عبداللہ بن عتیک کی ہے۔سلام نے کہا : پاگل ہوگئی ہے۔ اس وقت یہاں عبداللہ بن عتیک کیسے پہنچے گان ؟ ۔ بہر کیف عبداللہ نےہدیہ دینے کےحیلہ سے دروازہ کھلوایا ۔ سلام کی بیوی نےدروازہ کھول دیا ۔یہ کمرہ میں داخل ہوگئے اوراندر سےتالا لگادیا ۔کمرتاریک تھا۔ سلام کو پکارا اور اس کا جواب سن کرآواز کی سمت بڑھے اور قریب پہنچ کر اس پرتلوار سےوار کیا لیکن حمہ ناکام رہا۔یہ چھپ گئے اورچند لمحہ کےبعد آواز بدل کر فریاد رس کی صورت میں قریب آئے اورکہا : ابورافع کیا بات ہے !۔ اس نے کہا کسی نےتلوارسے مجھ پر حلمہ کردیا یہ آواز کے سمت بڑھے اوراس پر دوسرا حملہ کیا۔یہ حملہ بھی ناکام رہا پھر چھپ گئے اور چندلمحوں کےبعد قریب آکر تیسرا حملہ کیا اور اس دفعہ اس کو ختم کردیا ۔بالا خانہ کا دروازہ کھول کرباہر نکلے ۔چاندنی رات تھی ۔رینہ سےاترتے ہوئے انہوں نے سمجھا زمین تک پہنچ گیا ہوں ۔لیکن ابھی بہت اوپر تھے وہاں سےزمین پر گر پڑے ۔پاؤں ٹوٹ گیا ۔لیکن اس قتل کی خوشی میں ابتداء میں تکلیف نہیں محسوس ہوئی۔ صبح کو جب  زخم ٹھنڈا ہواتو راستہ چلتے ہوئے تکلیف محسوس ہوئی ، آں حضرتﷺ کی خدمت میں پہنچ کرمثردہ سنایا اورتکلیف  ظاہر کی ۔ آپ ﷺ نےلعاب دہن لگایا۔ پاؤں ٹھیک ہوگیا۔اورتکلیف وکرب جاتا رہا۔یہودیوں تعاقب کیا لیکن یہ لوگ دوسرے راستہ سےمحفوظ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔

اس واقع سے بھی چند باتیں معلوم ہوتی ہیں:

(1)  ابورافع نے نقص عہد  کیا ۔

(2)  آں حضرت ﷺ کواذیتیں پہنچاتا تھا۔عام مشرکین اور قریش مکہ سےبہت زیادہ ۔

(3)   مسلمانوں کےخلاف  مشرکین مکہ کو برانگیختہ کرتا تھا۔

(4)  ان کی مالی امداد کی تاکہ سامان رسد کی قلب نہ ہو۔

(5)   عزوہ احزاب یعنی خندق کی لڑائی کا یہ بڑا سبب تھا۔

(6)  اعلان جنگ کرکے میدان میں اس سےاور اس کی قوم سے لڑائی کرنے کےبجائے چندجاں نثاروں کو بھیج کر اس کوقتل کرا دیا گیا تاکہ فتنہ کی جڑکٹ جائے ۔

دونوں واقعوں کےسامنے آجانے کےبعد یہ بات واضح ہوگئی کہ ’’ تاریخ اسلام ،، میں ان واقعات کی نسبت جوکچھ لکھا گیا ہےقطعًا صحیح اور درست ہے۔ یہ واقعے  صرف تاریخی ہی نہیں ہیں بلکہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں بھی مروی ہیں جن کی رویات میں شبہ اورکلام کی گنجائش ہی نہیں کما لا یخفی علی اصحاب الحدیث .

حدیث اور کتب حدیث کےمتعلق  ’’طلوع اسلام ،، کےتنقید ی نگار کا عقیدہ:

’’ طلوع اسلام ،، کی تنقیدی  کی حقیقت اوراس کےاعتراض کاجواب دینے سےپہلے مناسب یہ ہےکہ تنقیدنگار کا عقیدہ اور مذہب ومسلک بابت کتب حدیث بیان کردیا جائے۔

(1)جہاں تک مجھے معلوم ہےتنقیدنگار کےنزدیک حجت شرعی صرف قرآن کریم ہے، یعنی : شرعی حکم صرف قرآن سےثابت ہوسکتا ہے۔حدیث سےجب تک متواتر نہ ہو جس کی تعداد اس کےخیال میں دوتین سےزائد نہیں ہےکوئی شرعی حکم نہیں ثابت کیا جاسکتا ۔یایوں کہیے کسی چیز کی حلت وحرمت ، جواز وعدم جواز  ،امرونہی محض قرآن سےثابت ہوسکتی ہے، اور مسلمان پرصرف قرآن کی اطاعت ضروری ہےاوروہ اسی کا مکلف ہے۔حدیث پرعمل کرنا ضروری نہیں ہے۔خلاصہ یہ کہ حدیث  حجت شرعی  اوردین نہیں ہے۔کیوں کہ ان کا کوئی اعتبار کافی نہیں ۔

(2) قرآن  کی تفسیر ،حدیث سےکرنے کی ضرورت نہیں ہےاور اس کی تفسیر کےلیے قواعد عربی اور عقل ودرایت کافی ہے۔

(3) قرآن جس امرونہی کےبیان سےخاموش ہےاوراس نےاس سےتعرض نہیں  کیا ہے نہ اثبات نہ نفیا ۔وہ حدیث سےنہیں ثابت کیا جاسکتا  ، پس جوحکم قرآن میں مذکورنہ ہو لیکن حدیث میں موجود ہوہم اس کے پابندنہیں ہوسکتے۔(ان امور کاوجہ سے تنقید نگار کو اکر اہل قرآن کہا جائے اورعدم حجیت حدیث بلکہ انکار حدیث کی وجہ سے اس مسئلہ میں خوارج کا ہم خیال ہونے کےسبب اس کو ’’خارجی ،،

(4) رویات حدیثیہ کی صحت معلوم کرنےکےلیے راویوں کی عدالت وثقاہت ،ضبط واتقان سےبحث کرنے سے پہلےان راویتوں کی عقل ودرایت کی کسوٹی  پر پرکھنا ضروری ہے، اگر عقل کےموافق ہوں گی تو صحیح سمجھ کر قبول کرلی جائیں گی ، مگرحکم شرعی اب بھی ان سےثابت نہیں ہوسکتا ۔  او راگر خلافت عقل ہوں گی تومکذوب اورمکروہ ہوں گی اروراویوں کی دسیسہ کاری محمول کی جائیں گی ، خواہ وہ رواۃ محدثین اور ائمہ جرح تعدیل کےنزدیک کتنے بڑے سچے اور ثقہ ،ضابط وعادل ،صاحب مرؤۃ وتقویٰ کیوں نہ ہوں۔

تنقید کی تشریح اور تجزیہ :

اب ہم اپنے الفاظ کی تشریح کرتے ہیں تاکہ تنقید ی  نگار کامقصد واضح ہوجائے اورجواب سمجھنے میں آسانی ہو۔

(1)  یہ روایتیں جن میں یہ دونوں واقعے بیان کئے گئے ہیں۔بہ حیثیت  فن روایت صحیح ہیں۔ان میں کلام صرف عقل وروایت کی روسے ہے، یعنی  :تنقیدنگار ان واقعات کومحض عقل ودرایت  کی روسے غلط قرار دیتا ہےاور  صاحب تاریخ اسلام کی تنقیدی عقل سےعاری سمجھتا ہے۔

(2)  یہ روایتیں عقل ودرایت سے خلاف اس لیے ہیں کہ آں حضرت ﷺ پر اپنے مخالفین کومخفی طور پر قتل کرانے کاالزام قائم ہوتاہے۔نبی کا اپنے مخالف کو خفیہ قتل کرانا عقلاسخت معیوب ہے، اور شان نبوت کےخلاف ہے ، اس لیے یہ روایتیں مکذوب اور مکروہ ہیں۔

(3)  اس صورت میں مناسب بلکہ حق یہ تھا کہ آپ ﷺ کعب بن اشرف اور سلام بن ابی الحقیق سےجنگ کااعلان کرتے اور میدان جنگ میں لڑائی کرکے ان دونوں کو قتل کراتے ،بلطائف الحیل قتل کرانا شان نبی سےبعید ہے۔

(4)  قرآن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ نبی   اپنےمخالفین اوراپنے دشمنوں کی  مخفی طور پر قتل کرادے ، یعنی : قرآن کریم اس کے بارے میں خاموش ہے او رحدیث سےیہ چیز ثابت نہیں کی جاسکتی ا س لیے بھی یہ واقعات غلط ہیں۔

(5)  صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دیگر کتب سیرومغازی کے راویوں اور مصنفین نے سلاطین نبی امیہ اور بنوعباس کی حمایت میں واقعات گھڑلئے ہیں ،تاکہ ان سلاطین وملوک کو اپنے فعل کےجواز کی سند اوردلیل مل جائے ۔بنابریں ا ن واقعات میں قتل کےجواسباب وعلل بیان کئے گئے ہیں وہ بھی گھڑلئے گئے ہیں۔

تنقید کی تنقید اور اس کا بچندوجوہ جواب :

اول : کسی یا کسی شرعی  حکم کی صحت کےلیے عقل کی معیار قراردینا محض درایت پر اعتماد کرنا غلط ہے۔ کیوں کہ عقل انسانی بےحد متفاوت المراتب ومختلف الدرجات ہےحتی کہ ایک ہی شخص مختلف زمانوں میں متفاوت ہوتی ہے۔ایسی صورت میں  صحت روایت کی کسوٹی کس سخص کی اورکس درجہ کی عقل قرار دی جائے گی ؟ جب کہ ایک عقل ایک چیز کودرست او رجائز بتاتی ہے اور دوسرے شخص کی عقل اسی چیز کوغلط اور مضر بتاتی ہے۔یاایک ہی واقعہ کوایک شخص زمانہ میں موافق عقل قراردیتا ہےاور دوسرے زمانےمیں خلاف عقل ۔انہی دونوں واقعوں کولے لیا جائے کہ اب تک پوری امت کوعقلاً ونقلا درست سمجھتی رہی ۔لیکن آج تنقید نگار  کی عقل جوسکرٹریٹ میں طاغوتی حکومت کی ملازمت کی شکل میں جسم وروح ، عقل ودماغ  ، ہاتھ وقلم فروخت  کردینے کوغالبا ﴿ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین﴾ ( الانعام  : 62) کےخلاف  نہیں سمجھی ۔ان دونوں واقعوں کوخلاف  شان نبوت یقین کرتی ہے۔

ہمارے نزدیک تونبی کا اپنے دشمن کوجو اس کے خفیہ قتل کرادینے کا قصد کرچکا ہو ، مخفی  تدبیروں سےقتل کراکر فتنہ کی جڑ کوکاٹ دینانہ خلاف عقل ہےنہ شان نبوت سےبعید اوراس  کےمنافی ۔پھر اگر عقل ہی معیار صحت ہےتو بہت سے قرآنی احکام جوہماری عقلوں سےبالاتر اورمخالف درایت ہیں ،قلم زد کرنے پڑیں گے۔قرآن کہتا ہے۔﴿ لاتأخذ بلحيتي ولا  برأسي ﴾ (طه : 8=94) ، ﴿وجوه يومئذ ناضرة الي ربها ناظره﴾ (القامه : 22/ 23)، ﴿وهو السميع البصير﴾ (غافر : 54) كيا بڑے بھائی کی داڑھی نوچتی اور سر کےبال پکڑ کر کسیٹنا موافق عقل اور موافق سان نبوت ہے؟ او ر کیا اللہ کےکان اور آنکھ ہے؟ اورکیا وہ مجسم ومحدود متناہی ومتحیر ہے؟ اور کیا خضر کا ایک   نابالغ بچہ کو متوقع اور موہوم امر کی وجہ سے قتل کرڈالنا عین شان نبوت  یا ولایت ہے؟ اورکیا مابعدالموت ’’قیامت ،، کےواقعات اور قرآن کی بیان کردہ تفصیلات کو ہر کس وناکس کی عقل قبول کرلیتی ہے؟ وغیر ذلک ۔

دوم :قرآن فرماتا ہے:﴿وقاتلو ھم حتی لا تکون فتنة﴾ (البقرہ : 193) اور فرمایا :﴿والفتنة اکبر من القتل﴾ ( البقرہ : 217) اگر آنحضرت ﷺ نےفتنہ وفساد کےلیے کعب اور ابورافع کرادیا یہ توحکم قرآنی کی تعمیل ہوئی اور فرمایا :﴿اقتلو المشرکین حیث وجدتموھم ﴾ (البقرہ : 6) اکر ابورافع اور کعب کونقض عہد کےباعث حربی ہوجانے کی صورت میں قتل کردیا گیا ، تویہ حکم ربانی کی تعمیل ہوئی۔

سوم : تنقید نگار کبھی تواپنے مخالف  کوبلطائف الحیل قتل کرانا خلاف عقل ومنافی سمجھتا ہےاور کہتا ہے کہ اعلان جنگ کرکے علانیہ لڑائی میں قتل کرنا چاہیے، اور کبھی نفس قتل کرادینے ہی کومعیوب اوربعید ازشان نبی سمجھتاہے ۔کیوں کہ اس کوسلام ابورافع کے قتل کرا دینے پر بھی اعتراض ہےاور ظاہر ہےکہ اس کا قتل بلطائف الحیل نہیں ہوا تھا ، لیکن یہی تنقید نگار آج جس چیز کوخلاف عقل اورخلاف شان نبوت قراردیتاہے، اس کا شیخ اٹھارہ بر س پہلے اسی کو صحیح اوروعین شان نبوت بتا اور لکھ چکا ہے۔چنانچہ سر گروہ اہل قرآن حافظ اسلم جیراج  پوری استاذ تاریخ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی لکھتے ہیں:

’’ چوں کہ اسلام کی ترقی سےیہود کا دنیاوی اثراوراقتدارنیزان کی دینی  عظمت کاسکہ اٹھتا جاتا ہے ، اس لیے کعب مسلمانوں کا سخت دشمن تھا۔ جنگ بدر کےبعد اس نے مکہ معظمہ میں جاکر کشتگان بدر کےدردناک مرثیے بناکر سنائے اورقریش کومسلمانوں سے انتقام لینے کےلیے آمادہ کیا ، وہاں سےآکر اپنے اشعار میں مسلمانوں کی ہجو اور بےحرمتی کرنے لگا اور درپردہ اس فکر میں پڑا کہ رسول اللہ ﷺ کو قتل کرادے ۔ آں حضرت ﷺ کوان باتوں کی اطلاع ہوتی رہتی تھی ۔اس وجہ سے رات کوباہر کم نکلتے تھے اس کی فتنہ انگیزیوں سے مجبور ہوکر ربیع الاول 3ھ میں محمدبن مسلمہ  کومع دوصحابیوں کےبھیجا ،انہوں نے جاکر اس کو قتل کردیا ۔،، (تاریخ الامت 1؍180)۔

غورکیجیے 1340ھ میں جوواقعہ صحیح اورموافق عقل تھا اور اس کےاسباب بھی نفس الامری او رواقعی تھے۔1358ھ میں غلط اورمکذوب ، مکروہ ،خلاف عقل اورمنافی شان نبی ہوجاتاہے ، اور راویوں کی دسیسہ کاری کانتیجہ  بن جاتا ہے،اور اس کےاسباب وعلل رایوں کی من گھڑت  باتیں ہوجاتی ہیں۔ایں چہ بوالعجبی است ۔تاریخ الامت میں سلام ابورافع  کاواقعہ مذکورنہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ الامت ۔’’ تاریخ الامم الاسلامیہ ،، للعلامہ الخضری کامختصر ترجمہ یا اسی سےماخوذ ہے۔اورا میں بہت سے غزوات وسراپا مذکورنہیں ہیں۔اس لیے صاحب تاریخ الامت نےبھی ان غزوات وسرایا کو چھوڑ دیاہے۔

چہارم :ان  دونوں واقعوں کےراویوں (جن کا جھوٹ بولنا کبھی ثابت  نہیں اورائمہ جرح تعدیل  کےنزدیک نہایت سچے ثقہ اور صاحب تقوی اور ودیانت ہیں) کی طرف بلاوجہ وسند جھوٹ کی نسبت کرنی اوران واقعوں کوان کی دسیسہ کاری بتانا سخت ظلم اور جہالت ہے۔حدیث کےموضوع ومختلف ہونے کےجوقرائن وعلامات  محدثیں نےبتائے ہیں یہاں ان میں سےکوئی دلیل وقرینہ موجود نہیں ہے۔

ملاحظہ ہو( ص :98تا ص : 105) موضوعات ملاعلی قاری وقواعد التحدیث ( لطاہر  الجزائری ) اورجن بعض محدثین ابن الجوزی  ،خطیب بغدادی  نے عقل ودرایت  کااعتبار کیا ہے ان کامقصد یہ ہے کہ واقعہ عام عقول سلیمہ کےخلاف نہ ہو، صرف ایک آدھ عقل کےنزدیک خلاف ہونے  کا اعتبار نہیں ہوگا  اور درایت  وعقل کی طرف مراجعت بھی اس وقت ہوگی جب روایت سندا کمزور ہو۔

پنجم:  قرآن ( وحی متلو ) کےعلاوہ حدیث (وحی غیر متلو) کےحجت شرعی ہونے پر بجز خوارج واہل قرآن کےساری امت کا اجماع واتفاق ہے۔کوئی صحابی اورتابعی اس کا مخالف نہیں ہے۔صحابہ برابر حدیث سےمسائل واحکام واستخراج کرتےہیں ۔حجیت حدیث پر بےشمار توضیح وتشریح کایہ موقعہ نہیں ہے۔

(1)   ﴿ قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني ﴾ .....الاية ( آل عمران  :31).

(2)  ﴿ وما آتاكم الرسول فخذوه ، ومانهاكم عنه فانتهوه ﴾  (الحشر :8).

(3)  ﴿ فلا وربك لايؤمنون حتي يحكموك﴾ الآية (النساء : 65)

(4)  ﴿ من يطع الرسول فقد أطاع الله ﴾ (نساء :70).

(5)  ﴿ فليحذرالذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم  فتنة  أو يصيبهم عذاب أليم ﴾ (النور:63).

(6)  ﴿ يا ايهاالذين آمنوا أطيعوالله وأطيعوالرسول ﴾ الآية (النساء  : 59).

(7)  ﴿ وأنزلنا اليك الذكر لتبين للناس مانزل اليهم ولعلهم يتفكرون ﴾ .(النحل  : 44).

(8)   ﴿ ماكان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمرا﴾ الاية (الاحزاب : 36).

(9)  ﴿ سيقول السفهاء من الناس ماولهم ﴾ الآية : (البقره :142).

(10) ﴿ وماينطق عن الهوى إن هوإلا وحي يوحى ﴾ (النجم : 3) تلك عشرة كاملة .

حدیث کےحجت شرعی اورواجب العمل ہوجانے کےبعد ان دونوں واقعوں کے صحیح  ہونے میں اور نبی کےاپنے خون کےپیاسے دشمن کےخفیہ قتل کرادینے کےجواز میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔

ششم:      اگرنبی کا اپنے مخالفین  سےمیدان جنگ میں مقابلہ کرنااگرچہ مدافعانہ سہی اور دشمنوں کےقافلہ تجارت سےتعرض کرنا معیوب اور خلاف انسانیت ومنافی شان رحمۃ اللعالمین  نہیں ہے ۔صلح حدیبیہ کےموقعہ پرحضرت عثمان ﷜ کی شہادت کی افواہ سن کر آپ ﷺ نےمکہ والوں سےان کےخون کاانتقام لینے کےلیے شرکاء صلح حدیبیہ سےبیعت لی۔اگر ایک آدمی کےخون کا بدلہ لینے کےلیے پورے مکہ والوں سےلڑائی ٹھان لینی عقل کےموافق ہے، تواپنی  جان کےاور مسلمانوں کےدشمن کوقتل کرادینا   بھی موافق عقل ہے۔

ہفتم:        (’’ النبی الخاتم ،، کےمصنف کی عبارت میں) ’’یہی یہودی جن کاخون ہرزمانہ اور ہرملک میں تقریبا ہر صدی میں ارزاں رہا ہےاب تک  ہے ۔( اورآئندہ  بھی رہے گا جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿ واذتأذن ربك ليبعثن عليهم الى يوم القيامة من يسومهم سوء العذاب ﴾ (الاعراف : 167) جب خون كى مستحق ہوچکے تھے اور ہراعتبار سےہوچکےتھے ،لیکن ان کےہزاروں کےخون کو صرف کعب بن الاشرف اورابو رافع بن حقیق دوہی آدمیوں کےخون سےمحفوظ کردیا گیا ، بہت بڑا خیروہ شرہے جس کےذریعہ سےکسی غظیم و جلیل شرکاء کا سدباب ہوتاہے ۔

قصاص  میں زندگی ہے آخر اس قانون میں کیا ہے؟ بلاشبہ ان دونوں کی موت میں ان تمام یہودیوں کی زندگی کی ضمانت تھی، جوان کےبعد زندہ رہتا ،جیسا کہ ہمیشہ اسی قسم کےبدباطن یہودیوں نےاپنی قوم میں ،ملک میں ، اور زمانہ میں زندگی تلخ کی ہے ، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔بلکہ سچ یہ ہےکہ بنی قریظہ کی چھوٹی  جماعت اگرچہ ان ہی کی شریعت  ان ہی کاحکم سےمٹائی گئی ۔لیکن اسی کےساتھ کیا اس چھوٹی جماعت کی موت میں عرب کےبارےمیں یہودیوں کی زندگی مستورنہ تھی ۔سنگ دل اورظالم ہے وہ جراح ،جس نےایک انگلی کے  لیے پورے جسم کو سڑک نےدیا ،، (ص: 170) ۔  ( محدث دہلی ، ج : 1 ش : 8 ذی الحجہ  1325ھ ؍ نومبر1946ھ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 133

محدث فتویٰ

تبصرے