سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39)ہندوستان میں خصوصا دکن اورعلاقہ مدراس میں کئی جگہ جہاں موئے مبارک آں حضرت ﷺ موجود ہے

  • 15887
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 879

سوال

(39)ہندوستان میں خصوصا دکن اورعلاقہ مدراس میں کئی جگہ جہاں موئے مبارک آں حضرت ﷺ موجود ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہندوستان میں خصوصا دکن اورعلاقہ مدراس میں کئی جگہ آثار شریف ہیں۔جہاں موئے مبارک آں حضرت ﷺ موجود ہے۔اس کولوگ ہرسال باقاعدہ نکالتے ہیں اور اس کی بہت تعظیم وتکریم کرتے ہیں۔زید کہتا ہےکہ جس جگہ موئے مبارک موجود ہووہاں ابر سایہ فگن ہوتا ہےاو راس کے گھر والوں کوکوئی تکلیف نہیں پہنچی اورمریض شفایاب ہوتا ہے۔سوال یہ ہےکہ آیا اس کوموئے مبارک سمجھیں ؟او راس کی تعظیم کرنی چائیے یا نہیں ؟ اس کی نمائش جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب تک صحیح طریقہ پرموئے مبارک آں حضرت ﷺ کا ہونا ثابت نہ ہوجائے اُن بالوں کوموئے مبارک نبوی سمجھنا انتہائی سادہ لوحی ہے ۔ خواہ وہ ہندوستان میں ہویا دنیا کےکسی اورحصے میں ۔خدا جانے ان گدی اورسجادہ نشینوں نے اپنی دکان کو سجانے اورچمکانے کےلیے کتنی جگہ یہ ڈھونگ کھڑا کر رکھا ہے۔بالفرض اگر ان آثار کا آثار نبی ﷺ ہوناثابت ہوجائے توبھی ایسی نمائش اورایسی تعظیم وتکریم جو تعبد کی حدتک پہنچ جائے قطعا ناجائز ہے۔ زید کا یہ کہنا کہ ایسی جگہ ابر سایہ فگن ہوتا ہےاوراس کے گھر والوں کوتکلیف نہیں پہنچتی بےاصل بات ہے۔ان کے ذریعہ استثفا بھی محل تامل ہے۔

حضرت اسما رضی اللہ عنہا کی حدیث جس میں جبہ نبوی  ﷺ کاان الفاظ میں ذکر ہے:’’ كان النبى  ﷺ فنحن نغسلها للمرضى نستشفى بها ،، (مسلم كتاب اللباس با ب تحريم استعمال اناء الذهب والفضة على الرجال والنساء – ( 2069) 3/1641.)اس  کےمتعلق علامہ امیر یمانی  رحمۃ اللہ علیہ  سبل السلام 2؍119 میں فرماتے ہیں ’’فيه  الا ستشفاء بآثاره ﷺ وبما لا بس جسده الشريف ، كذاقيل ، الا أنه لا يخفى أنه فعل الصحابة لا دليل فيه،، انتهي . تبرک باآثارالصالحین کا یہ معنی نہیں ہے کہ ان آثار کی ایسی تعظیم وتکریم کی جائے اورایسا طریقہ ااختیار کیا جائے ، جوتعبد کی  حدتک پہنچ جائے اورمفضی الی الشرک ہو ۔ ( مصباح بستی محرم 1373ھ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 118

محدث فتویٰ

تبصرے