حمل روکنا جائز نہیں لیکن اگر اس کی ضرورت ہو اور ماہر قسم کے ڈاکٹر یہ فیصلہ کردیں کہ ولادت کی وجہ سے کمزوری بہت زیادہ ہوجائے گی یا پھر مرض کے زیادہ ہونے کا خدشہ ہو یا پھر حمل یا ولادت کی وجہ سے ہلاکت کا خدشہ غالب ہوتو پھر جائز ہے لیکن اس منع حمل میں بھی خاوند کی رضا مندی کا شامل ہونا ضروری ہے اور جب یہ عذر ختم ہوجائے تو پھر عورت کو اپنی اصلی حالت پر لایا جائے۔( دیکھئے فتاویٰ المراۃ المسلمۃ(2/977)
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ وزن کم کرنا چاہتی ہیں تو آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ یہ کوئی ایسا عذر نہیں جس کی وجہ سے منصوبہ بندی کو مباح قرار دیا جائے لہذا آپ کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔ہاں وزن کم کرنے کے لیے ہم آ پ سے کہیں گے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر چلیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"آدمی کا سب سے بڑا بھرا ہوا برتن پیٹ ہے اسے اتنا ہی کافی ہے جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھے اگر وہ ضرور ہی کھانا چاہتاہے تو پھر پیٹ کے تین حصے کرے،ایک کھانے کے لیے ایک پینے کے لیے اور ایک سانس کے لیے۔"( صحیح :صحیح الجامع الصغیر(5674)
اسی طرح آپ سے(حمل سے بچاؤ) کے لیے بعض مباح وسائل کو بھی بروئے کار لاسکتی ہیں مثلاً دوران جماع عزل کرنا(یعنی انزال با ہر کردینا) اہل علم کے ہاں صحیح قول یہی ہے کہ سبب کے بغیر بھی انزال کرنے میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ حدیث میں واردہے:
"ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن بھی نازل ہورہا تھا۔"( بخاری(5209) کتاب النکاح باب العزل مسلم(1440) کتاب النکاح باب حکم العزل ابو یعلی(2193) ترمذی(1137) کتاب النکاح باب ما جاءفی العزل احمد(3/377) بیہقی)(7/228)
اور ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو اولاد آپ کے مقدر میں لکھ رکھی ہے وہ آپ کے گمان سے بھی بہترہو اور ایک اچھا ذخیرہ بن سکے اورخاص کر آپ کے بڑھاپے میں اور بھی بہتر ہو۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)