السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہابی کی تعریف کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قاعدہ کی رو سے ’’ وہابی ،، اس کو کہنا چاہئیے جو مجددملت شیخ الاسلام حضرت محمد بن عبدالوہاب نجدی رحمۃ اللہ علیہ (1115ھ ؍ 1206؍ 1792ء ) کامقلد اور پیرہو۔جیسے چاروں اماموں کےمقلدین اورپیروؤں کو مالکی ، شافعی ، حنبلی ، حنفی کہا جاتا ہے ،لیکن نجد کےاس مجدد اورامام ،علمبردار توحید کی مبارک تحریک کےمخالفین نےسیاسی اغراض ومقاصد کی بنا پر دنیا کےسامنے ،اپنے غلط بیانیوں اور افتراپرادازیوں کے ذریعہ اس تحریک ’’ وہابیت ،، اور’’ وہابی ،، کونہایت بھیانک اورخوف ناک صورت میں پیش کیا ۔تاکہ دنیا ئے اسلام اس تحریک اوراس کےبانی اورحامیوں کی مخالف ہوجائے۔چنانچہ وہ اپنے ناپاک مقصد میں کسی قدر کامیاب بھی ہوگئے۔ہندوستان میں ایک زمانہ میں ’’وہابیت ،، نام تھا حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ ( 1201ھ ؍ 1786ء؍ 1246ھ؍ 1831ء) ۔ اورمولانا اسمعیل شہید رحمہ اللہ کی تحریک دعوت وتجدید کو، نجد کی وہابی تحریک سےدور کا تعلق بھی نہیں ، یعنی : ایک نےدوسرے کی تعلیمات سے بالکل فائدہ نہیں اٹھایا ۔( ملاحظہ ہوسیرت حضرت سید احمد شہید )
پھر ایک دوسرا دور آیا ۔اس دور میں غلط فہمی سے ’’وہابیت ،، اور ’’ وہابی ،، نام ہوگیا ہندوستا ن میں برٹش امپر یلیزم سے بغاوت اور باغی کا ۔اس غلط فہمی کی بنا پرمسلمانوں پروہ سب کچھ گزرا جس کےبیان کرنے کےلیے زبان مین طاقت نہیں ۔
اس کے بعد دتیسرا موجودہ دورآیا۔اس میں ’’وہابیت ،، نام ہوگیا ہے شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب کی تقلید واتباع کا ، اور ’’تقویۃ الایمان ،، پڑھنے پڑھانے کا ، اوران غلط بیانیوں ، دروغ باقیوں ، افتراپردازیوں اور بے سر وپاباتوں کا، جن کا سلسلہ بریلوی حنفیوں نے اہل حدیثوں کو بدنام کرنے اورجاہل مریدں کواندھیرے میں رکھنے کے واسطے جاری کر رکھاہے ، اور اگر حقیقت اورواقعیت کالحاظ کیا جائے توانہوں نے ’’وہابیت،، نام رکھا ہی ’’ اہل حدیثیت ،، یعنی : قرآن وحدیث کےاتباع اوراجتناب من البدعات کا ، اور ’’ وہابی ،،نام رکھا ہےاس شخص کا : جوبریلوی رضائی عقیدہ نہ رکھتا ہواور ہرقسم کی بدعتوں سےپرہیز کرتا ہواتقلید سے الگ رہ کر صرف قرآن وحدیث پرعمل کرتا ہو۔حالاں کہ اہل حدیث جس طرح کسی امام کے مقلد نہیں ، اسی طرح شیخ الاسلام ابن عبدالوہاب کے مقلد اورپیروبھی نہیں۔اور نہ ان کی تحریک ، شیخ الاسلام کی تعلیمات سےماخوذ ہےاگر چہ دونوں تحریکوں کاماخذ اورمقصد ایک ہے ۔اسی طرح ان کا دامن ان بہتانات اور خرافات سےبھی پاک اورمنزہ ہے، جوان کی طرف ناپاک مقصد کی خاطر منسوب کی جاتی ہیں،کیوں کہ وہ صرف قرآن وحدیث پرعمل کرتے ہیں اوربس ۔پس ان کو وہابی کہنا انتہائی ظلم ہے۔شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب کے صحیح حالات اوران کی تحریک تجدید واما مت کے مستندمفصل کوائف ونتائج معلوم کرنا چاہیے ہوں ،تو ذیل کی کتابوں کامطالعہ کیجیے :
(1)روضة الأفكار والأفهام لمرتادحال الامام وتعدد غزوات ذوي السلام لابن غنام. (عربي)
(2)عنوان المجيد في تاريخ نجد لعثمان بن بشير النجدي . (عربي)
(3)الهدية السنية والتحفة الوهابية النجدية لابن سمحان . (عربي)
(4)تبرية الشخين الإمامين . (عربي)
(5)حاضر العالم الاسلامي الأمير شكيب أرسلان. (عربي)
(6)’’ تا ريخ نجد ،، حافظ أسلم جيراجپوری. (اردو)
(7)سيرة محمد بن عبدالوهاب مسعود عالم تدوي (اردو)
(8)اس موضوع پر فلبی وغیرہ کی انگریزی تصنیفات .
( محدث دہلی : ج5ش : ذی القعدہ 1360ھ؍ دسمبر 1942ء)
وہابی اور درود
ہندوستان کےمسلمانوں کےحالت جس قدر خراب اوربتر ہے،شاید کسی دوسرے ملک کےمسلمانوں کےحالت اس قدر خراب اور پست نہیں ہوگی ۔مالی حیثیت سےوہ مفلس اور قلاش ، اور برادر ان وطن اور مسلمان ایک زراعت پیشہ قوم سمجھے جاتے تھے۔مگر افسوس ان کی فضول خرچیوں اوربے ہودہ رسم ور واج کی پاپندی اورحد سےبڑ ھے ہوئے اخراجات کےباعث ، ان کی جائداد دیں اوراراضی سوددرسود کی لعنت میں گرفتار ہوکر ان کےقبضہ سےنکلتی جارہی ہیں۔تجارت کومسلمانوں نے غیر شیریف وسیلہ معاش سمجھ کر اس سےکنارہ کشی کرلی ۔اس لے تمام بڑی اورچھوٹی تجارتوں پرہندوؤں کا قیضہ ہوگیا ۔یہاں تک کہ مسلمانوں کی بازار کی معمولی چیزیں بھی ہندوہی کےہاتھ سےخرید نی پڑتی ہیں۔اوراب گاؤں کےہندومہاجنون نےمسلمانوں کوناعاقبت اندیشی سےفائدہ اٹھا کر ان دوسرے اہم ذریعہ معاش پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی ہے، جس کےعبرت انگیز دود ناک واقعات آئے دن اخبارات کےذریعہ ہم کومعلوم ہوتے رہتے ہیں۔
مسلمانوں کی اقتصادی تباہی کاسبب ، جس طرح ان کی فضول خرچی ، غیر کفایت شعاری اورسابق شاہانہ حاکمانہ دوور کا تخیل اورتصور ہے، اسی طرح میرے نزدیک اس کا ایک سبب یہ بھی ہےکہ ہمارے علماء اور واعظین نےانھیں صرف زہد وتوکل اور دنیا سے بےرغبتی کی وعظ سنا ،سنا کران کے لیے دنیا کوحقیقی اورظاہری معنی میں قید خانہ سمجھنے پرمجبور کردیا ، جس نے ان کو ترقی کےمیدان میں جدو جہد کرنےسے بزدل اورکمزور بنادیا ۔افسوس ! انہوں نے زہد وتوکل کی تعلیم کےساتھ دولت کواور حلال طریقہ پربیش از بیش حاصل کرکے جائز جکہوں میں خرچ کرنے کی تلقین کرطرف توجہ نہیں فرمائی ۔حالاں کہ اسلام ترک لذات ،محض زہد فی الدنیا کامعلم نہیں ہے، ورنہ اسلام کےبہت سےاحکام اور تعلیمات مثل زکوۃ ،حج ، جہاد ، اوقات ، صدقات جاریہ وغیرہ اسلام سےخارج کرنے ہوں گے ۔میرا مقصد یہ ہے کہ حضرات واعظین نےزہد فی الدنیا اورتوکل کام غلط مفہوم ،قوم کےسامنے پیش کرکے ان کے ارادوں کوکمزور اورہمتوں کی پست کردیا ۔
مسلمانوں کی تعلیمی پستی بھی کسی سےمخفی اورپوشیدہ نہیں ہے۔عربی مذہبی تعلیم سےامراء اوررؤسا کوسروکارنہیں ہے۔اس کو گداگری یعنی : امامت اورمسجد کی موذنی وغیرہ کاذریعہ سمجھتے ہیں۔اور اب عوام اورمتوسط طبقہ میں بھی مذہبی تعلیم کاوہ جوش نہیں ہےجوآج سےدس سال پہلے تھا ۔کیوں کہ مغربی اثرات کی اندھی تقلید اورمذہب سےبیزاری کےباعث ، دلوں میں اس کی عزت اوروقعت کم ہوتی جارہی ہے۔باقی رہی دنیاوی تعلیم ،توشروع میں انگریزی تعلیم کوحرام قرار دے کر مسلمانوں کو اس سےموڑ اگیا ، جس کانتیجہ نہایت افسوس ناک اوربراظاہر ہوا، اورجس کا اثرات تک باقی ہےیعنی : اب بھی مسلمان دوسری قوموں کی نسبت اس تعلیم میں بھی بہت پیچھے ہیں۔اور برادارن وطن کےتمام سرکاری محکموں پرقبضہ کرلینے سےمصیبتیں جھیل رہے ہیں۔
اور چوں کہ تعلیم اپنے نقائص اورمعایب کی وجہ سے محض غلام ساز اورنوکر گرہے اورملازمت کا شعبہ محدود ہے۔اس لیے اب ایسے تعلیم یافتہ ہندواور امسلمان گداگر پیدا ہورہے ہیں جن کی کہیں بھی کھپت نہیں ہوسکتی ۔اورجو نہ دین کےہیں ،نہ دنیا کے ، جس طرح تعلیم کے زمانہ میں والدین کےلیے بارگراں تھے ، ڈگر ی حاصل کرنے کےبعد بھی ان کے محتاج اوران پربوجھ بن گئے ہیں۔افسوس نہ ہوئے حالی مرحوم ،ورنہ وہ صرف مولویوں کوکوسنے پراکتفاکرتے ۔
سیاسی حیثیت سےبھی مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔آج سےچند برس پہلے ’’سیاست ،، کالفظ سن کر گھبرا اٹھتے تھے۔سیاسی میاحث اورملکی معاملات میں حصہ لینا گناہ عظیم سمجھتے تھے ۔اور یہ اثر تھا گدی نشین پیروں ، صوفیوں اورمولویوں کی غلط تعلیم کا ، جہوں نےجبر واستبداد اور ظلم وجور کی طاغوتی طاقت سےمرعوب ہوکر السلطان ظل الله ، من أكرمه أكرمه لله ، ومن أهانه أهانه الله ( بادشاہ وقت زمین پر خدا کاسایہ ہےجواس کی عزت کرے گا خدا اس کی عزت کرے گا اورجو اس کی توہین کرے گا خدا اس کوتوہین کرےگا) ﴿ولتجدن أشد الناس عدواةللذين آمنوا اليهود والذين أشركوا ، ولتجدن أقربهم مودة للذين آمنوا الذين قالوا إنا نصاري ﴾( المائده : 82) ’’ اے پیغمبر ! تم مسلمانوں کا سخت ترین دشمن یہودیوں اورمشرکوں کوپاء گے ، اوران کا قریب ترین دوست ان لوگوں کوپاؤ گے جنہوں نے اپنے کونصاری ،، (غیسائی بتایا) اوراس قسم کی دوسری احادیث وآیات کی غلط اورباطل تفسیر سےمسلمانوں کوبزدل ،مرعوب ،نکما کردیا ۔خدا کا شکر ہےکہ اب ان جاہل مولویوں کی یہ تلبیسات بہت کچھ زائل ہوگئ ہیں اور مسلمانوں میں بیداری اور حرکت ہورہی ہے۔
مسلمانوں کاتمدن ، ان کی معاشرت اورتہذیب ،ان کےاخلاق وعادات دورسری قوموں کے لیے نمونہ اورمثال ہے۔دورسری ملتیں ان کی اتباع ، اپنے لیے باعث فخر وعظمت سمجھی تھیں۔مگر آج انتہائی حسرت ویاس کےساتھ لکھنا پڑتا ہے مغربی قوم کی اندھی تقلید نےہماری خصوصیت اورامتیازی شان کوبھی باقی نہیں رہنے دیا۔ہم مغربی تہذیب اورمعاشرت پر آنکھیں بند کرکے ایسے فدا ہوئے کہ اپنی تہذیب ومعاشرت کوبربریت اوروحشت خیال کرنے لگے ، یورپ کی ظاہری شکل وصورت اورچمک دمک سےہماری آنکھوں کوچکا چوندھ ہوگیا ۔حالاں کہ یورپین قومیں اپنے ساتھ اچھی اوربری ہرقسم کی چیزیں لائی ہیں۔ہمارا فرض ہونا چاہیے کہ ان کی اچھی چیزیں جومشرقی اور اسلامی آداب سےمتصادم نہ ہوں قبول کرلیں ۔اوربری چیزیں چھوڑ دیں اوراندھا دھند بھیڑ کے گلہ طرح ان کے پیچھے نہ ہولیں۔
تنظیم و سنگھٹن اتحاد واتفاق میں بھی مسلمانوں ہندوبرادران وطن سےکوئی نسبت نہیں رکھتے ۔ہماری قوم میں جس قدر اختلاف اور پھوٹ ہے، فرقہ بندی اورنااتفاقی ہےہندؤوں میں ہے،نہ عوام میں اتفاق ہے، نہ خواص میں اس کا احساس ،بلکہ ہر ایک لیڈر اورمولوی اپنی اپنی مسجد الگ بنانے اورقائم رکھنے میں مشغول ہے۔ایک جماعت کےافرا د واشخاص کےمتعلق افترا، کذب بیانی ، دشنام دہی ،بہتان طرازی سےدریغ نہیں کرتی اورمقدور بھران کی بدنام کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہےتاکہ اپنا اقتدار اور وقار قائم او رباقی رہے، غرض یہ کہ سیاسی زعمااورمذہبی رہنما اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اسلام کی مخالف قوت کومسلط اور برقرار رکھنے کےلیے مذہب اوراسلام کی خدمت کی آڑ میں عوام کو لڑاتے رہتے ہیں اوراپنی اس حرکت سے مسلمانوں کوبدنام اورذلیل کرتے تھے ۔حقیقت میں اصحاب جانتے ہیں کہ ناعاقبت اندیش لیڈروں اورمولویوں کی اس ہنگامہ آرائی سےکس کوتقویت پہنچ رہی ہے۔کاش یہ بھی عقل وخرد سےکام لےکر اسلام کی عزت اورحرمت قائم رکھتے ۔جہلا اورعوام سےاس قسم کی حرکات صادر ہوتووہ ایک حد تک معذور ہیں۔مگر تعجب ہےان علماء اور صوفیا پرجو عوام کوخوش کرکے اپنی جیبوں کوگرم کرنے کے لیے اپنی بزرگی اورتقدس باقی رکھنے کےلیے قرآن اور حدیث کےنصوص کوپس پشت ڈال دیتے ہیں۔اور ایک دوسرے کےخلاف ایسی کذب بیانی اورافتراپر دازی ، دشنام دہی ، تکفیر وتفسیق ، تضلیل وتجہیل سےکام لیتے ہیں کہ انسانیت اس سے شرماتی ہے۔
حنفیوں خصوصا رضائی پارٹی کی طرف سےاہل حدیثوں پرآئے دن نئے نئے بہتان باندھے جاتے ہیں ۔گندھ اور بیہودہ مسائل ان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔جن سےخود فقہ حنفی کادامن پاک اور منزہ نہیں ہے، جس کوشک ہووہ ’’ درمختار ،، وغیرہ کےمطالعہ کےساتھ ’’ حقیقۃ الفقہ ،، اور مولانا محمدصاحب مدظلہ کی تصانیف متعلق فقہ حنفی اوراخبار ’’محمدی،، کا بنظر انصاف مطالعہ کرے ۔اہل حدیث کو وہابی نجدی شیخ محمدبن عبدالوہاب نجدی کا متبع کہاجاتاہے۔چنانچہ ایک بزرگ حنفی نسائی مطبوعہ مجتبائی ص: 380 کے حاشیہ پر تحریر فرماتے ہیں :
’’ثم ليعلم الذين يدينون دين عبدالوهاب النجدي ، ويسلكون مسالكه في الأصول والفروع ، ويدعون في بلادنا باسم الوهابيين وغيرالملقلدين ، ويزعمون أن تقليد أحد الأئمة الأربعة رضوان الله عليهم شرك ، وأن من خالفهم هم المشركون ، ويستبيحون قتلنا أهل السنة وسبي نسائنا ، وغير ذلك من العقائد الشيعة ، التي وصلت إلينا منهم بواسطة الثقات ، و سمعناها بعضا منهم أيضا ، هم فرقة من الخوارج ، وقد صرح به العلامة الشامي في كتابه رد المحتار عند قول صاحب الدر المختار : ويكفرون أصحاب نبينا صلي الله عليه وسلم ، في كتاب البغاة ،حيث قال قد علمت أن هذا غير شرط في مسمي الخوارج ،بل هوبيان لمن خرجوا علي سيدنا علي رضي الله عنه ، وإلا فيكقي فيهم اعتقاد كفر من خرجوا عليه ،كما وقع في زماننا في اتباع عبدالوهاب الذين خرجوامن نجد ، وتغلبوا علي الحرمين ، وكانون ينتحلون مذهب الحنابلة، لكنهم اعتقدوا أنهم هم المسلمون ، وأن من خالف اعتقاد مشركون ، واستباحوا بذلك قتل اهل السنة وقتل علماء هم، حتي كسر الله شوكتهم وخرب بلاهم ، وظفر بهم عساكر المسلمين عام ثلث وثلثين ومأتين وألف ،، انتهي .
(ترجمہ ) : ’’معلوم ہونا چاہیے کہ جولوگ عبدالوہاب نجدی کےدین اورمذہب کےپیروہیں، اور اصول وفروع میں اس کے مسلک پرگامزن ہیں ،اور جن کوہندوستان میں وہابی اورغیر مقلد کہا جاتا ہےاور جوتقلید شخصی کوشرک اوراپنے مخالفین کومشرک سمجھتے ہیں ،اور اہل سنت کےقتل اوران کی عورتوں کےقید کرلینے کومباح اورحلال جانتے ہیں،اور جن کی طرف بعض د وسرے برے عقائد منسوب کئے جاتے ہیں جن کی ہم کو ثقہ اورمعتبرلوگوں نےاطلاع دی ہے ،اور بعض وہابیوں سےہم نےخود سناہے ،کہ یہ سب کےسب خارجی ہیں۔علامہ شامی نےبھی اپنی کتاب ’’ ردالمختار ،، میں اس کی تصریح کردی ہے ۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ : خارجی ہونے کےلیے صحابہ کرام کوکافر سمجھنا شرط نہیں ہے خارجی ہونے کےلیے امام وقت کوکافر خیال کرنا کافی ہے۔جیسا کہ ہمارے زمانہ میں پیروان عبدالوہاب نجدی کا حال ہے، جو نجد سےنکل کر حرمین پر قابض ہوگئے ، اورجو اپنے کوحنبلی کہلاتے ہیں لیکن ان کا عقیدہ ہےکہ دنیا میں صرف وہی مسلمان ہیں ، جولوگ ان کے عقائد کے خلاف اپنے عقائد رکھتے ہیں وہ مشرک ہیں۔اور جنہوں نے اس بہانہ سےاہل سنت اوران کےعلما کےقتل کومباح سمجھ لیا ہے۔حتی کہ اللہ نے ان کی شوکت اور قوت 1233 ھ میں ختم کردی ۔،،
کس دلیری اور جرات کےساتھ بلکہ سادگی اوربھولے پن سےہندوستان کے اہل حدیثوں کو عبدالوہاب نجدی کا پیر واور متبع بتایا گیا پھر خارجی ہونے کا فتوی جڑ دیا گیا ہے، اوراس کےبعد ان کی طرف وہ باتیں منسوب کی گئیں ہیں جن سےوہ پاک ہیں ، بلکہ یہ عقائد خود رضائی جماعت کے ہیں ۔شک ہوتو فتاویٰ رضائیہ اوران صوفیائے کرام کی تصانیف ملاحظہ ہوں جو اہل حدیثوں کوکافر اورحرام زادہ حلال الدم سمجھتے ہیں ۔ہماری طرف سے بارہا کہا گیا ہے کہ ہمارے مذہب کی بنیاد کتا ب اللہ اوراحادیث رسولاللہﷺ ہیں۔
ان دو چیزوں کے علاوہ ہم کسی چیز کودین کی بنیاد نہیں قرار دیتے ۔ہم نےخدا اور اس کے رسول کےاور اپنے درمیان کسی غیر معصوم امام یا عالم اوربزرگ کو واسطہ نہیں ٹھہرایا ہے۔خلاصہ یہ کہ ہم نے براہ راست بلاواسطہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا دامن پکڑ رکھاہے ۔
اس لیے ہم نہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے مقلد ہیں اور نہ علامہ محمدبن عبدالوہاب نجدب کے ۔ہمارے نزدیک ان میں سے کوئی بھی واجب الاتباع نہیں ہے۔پیغمبر علیہ الصلوۃ والتسلیم کےبعد سب ائمہ اور صلحاء غیر واجب الاتباع ہونے میں یکساں ہیں۔پس اہل حدیث کومحمد بن عبدالوہاب کا ، یا کسی اورکا مقلد یا پیروقرار دینا ظلم صریح ہے۔ہم کواس سےزیادہ علامہ شامی پر تعجب اورافسوس ہےکہ انہوں نے کیسے اتنی بڑی غیر ذمہ دارانہ بات بغیر تحقیق کےلکھ ماری !؟ ۔ یہ سب محض مذہبی تعصب اورکج روی اورتقلید کا کرشمہ ہےکہ ایک موحد اور متبع سنت جماعت کواحیائے سنت کی پاداش میں خارجی لکھ دیا گیا۔ہم کویقین ہے کہ اگر انہوں نےعلامہ محمدبن عبدالوہاب کی تصانیف دیکھی ہوتیں توہرگز ایسی غیر محقق اوربے بیناد بات نہ لکھتے ۔
رضائی گروہ کی طرف سےاہل حدیثوں پر، یانجدی وہابیوں پر، جوالزامات اوربہتانات لگائے جاتے ہیں۔ان میں ایک بڑا بہتان اورسفید جھوٹ یہ ہے کہ اہل حدیث ،نجدی ، وہابی شفاعت کے منکر ہیں اور آں حضرت ﷺ پر درود نہیں بھیجتے ۔وہی محشی موصوف نسائی (1؍15) کے حاشیہ پرتحریر فرماتےہیں:
’’ تأمل أن مثله صلي الله عليه وسلم إذا كان يتأثر من مثل تلك الهيئة ، فكيف بالغير من أهل الأهواء والبدع ، الذين من العلماء المجتهدين ، فعليك عنهم وعن من هو مثلهم في افساد الدين ،، الخ .
دیکھا آپ نےکس طرح وہابیوں کو
(1) اہل ہوا
(2) بدعتی
(3) منکر شفاعت
(4) مسلمانوں میں تفریق اور فساد ڈالنے والے
(5) مجتہدین امت سےبغض اور دشمنی رکھنے والے القاب سےیاد کیاگیا ہے۔
پھر ان سے الگ تھلک رہنے یعنی شادی بیاہ ، لین دین ، ترک کرنے بلکہ کامل بائیکاٹ کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔مقاطعہ اوسوشل بائیکاٹ کےمتعلق تواب بھی دیوبند وغیرہ سے کبھی کبھی مکروہ چتھڑے دیکھنے میں آجایا کرتےہیں اوروہ زیادہ تعجب کاباعث نہیں ہیں۔تعجب ان محشی صاحب پرہے جوخدمت حدیث کے پردے میں سچے مسلمانوں کو صلواتیں سنا رہے ہیں ،اور ایسی باتیں ان کی طرف منسوب کررہے ہیں جن سے ان کا دامن پاک اورمنزہ ہے۔افسوس افتراپردازی کانام خدمت حدیث رکھا جاتا ہے اور اس پر جماعت حنفیہ کرتی ہے۔مبارک ہویہ امتیاز اورخصوصیت ۔
جماعت اہل حدیث یا نجدیوں رپر یہ الزام اور افتراکہ وہ آں حضرت ﷺ پردرود نہیں بھیجتے ، ایسا ہےکہ کبھی کسی اہل حدیث یا وہابی کےتصور میں بھی نہ آیا ہوگا ۔یہی وجہ ہےکہ علمائے اہل حدیث اس دفعیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔مگر آج ہم ایک عینی شہادت نقل کرتے ہیں ۔جس سےمسئلہ درود کے بارے میں وہابیت کے تین بڑے ارکان کےخیال اورعقیدہ پرصحیح روشنی پڑتی ہے۔ہم امید کرتےہیں کہ مخالفین وہابیت سطور ذیل بغور ملاحظہ فرمائیں گے ۔
معزز مجلہ ’’ المنار ،، مصر کے ایڈیٹر علامہ سید رشید رضا گذشتہ سال حج کےلیے حجاز تشریف لےگئے تھے ۔واپسی پرانہوں نے سفر نامہ حجاز مرتب فرمایا ۔جس میں علامہ موصوف نےحجاز کےچشم دید حالات اورمشاہدات کوبالتفصیل درج کیا ہے، یہ سفر نامہ ’’ مطبعہ المنار ،، میں چھپ کرشائع ہوگیا ہے۔جس کا ایک ورق ہم اپنی ہندوستانی زبان میں منتقل کرتے ہیں، اورمخالفین وہابیت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس تحریر کوپڑھنے کےبعد کذب بیانی اورنیش زنی سے باز آئیں۔
ایڈیٹر المنار فرماتے ہیں:
’’گذشتہ سال جب میں فریضہ حج ادا کرنے کےلیے حجاز جارہا تھا ، تو’’کوثر ،، جہاز میں ایک مصری حاجی نے مجھ سےکہا کہ وہابی لوگوں کوآں حضرت ﷺ پردرود سلام بھیجنے سےروکتے ہیں ، اور اگر کوئی ان کے سامنے آں حضرت ﷺ پردرود بھیجتا ہے، تووہابی اس کوسخت سزا دیتے ہیں اور درود بھیجنے والے کوزد وکوب کرتے ہیں ۔میں نے اس مصری سےکہا کہ یہ محض غلط اوربے بنیاد الزام ہے۔جسے مخالفین وہابیت اور دشمنان ابن سعود پھیلانا چاہتے ہیں۔مصری نےکہا یہ غلط اورمحض خیال و وہم نہیں ہےبلکہ کھلی ہوئی ناقابل انکار حقیقت ہے۔آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔حجاز پہنچ کرمیں برابر ایسے موقعہ کی تلاش میں رہا جس سےاس الزام کی تردید یا تصدیق ہوسکے ۔
گذشتہ 12 ؍ مارچ کوپہلی مرتبہ جلالۃ الملک سلطان عبدالعزیز آل سعود ( خلداللہ ملکہ ) نےمجھے شرف ملاقات بخشا ، میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ عالم ، شاہ کو قرآن مجید کی تفسیر سنار ہے ہیں ۔جب مفسر نےاپنی قرآت ختم کرلی ۔توشاہ نے دین قیم اسلام کی خوبیاں اور فضائل بیان کرنا شروع کیا اور اس اثنا میں جب ان کی زبان پر آں حضرت ﷺ کا ذکر مبارک آجاتا ، تو وہ آں حضرت ﷺ پرضرور درود وسلام بھیجتے ۔ایک دفعہ بھی توایسا نہیں ہواکہ آں حضرت ﷺ کا ذکر آیا ہواور سلطان نےدرود نہ بھیجا ہو۔
اس کے بعد مجھ کونجد کےمشہور بزرگ علامہ شیخ عبداللہ بن بلیھد سےملنے کااتفاق ہوا ، انہوں نے مجھے ایک رسالہ جامع المسالک فی احکام المناسک عنایت فرمایا ، جس میں انہوں ے نے حج کےاحکام کومفصل طورپر بیان کیا ہے، اس رسالہ کوحکومت حجاز مفت تقسیم کرتی ہے۔میں نے اس الزام کی حقیقت معلوم کرنے کےلیے اس رسالہ کی ورق گردانی شروع کی ، تودیکھا کہ علامہ موصوف جہاں کہیں آں حضرت ﷺ کااسم مبارک ذکر کرتے ہیں وہاں بالالتزام صلوۃ وتسلیم ذکر کرتے ہیں۔میں نے موصوف سےعرض کیا بعض لوگ وہابیوں کویہ الزام دیتے ہیں کہ یہ آں حضرت ﷺ کے نام کے ساتھ درود سلام نہیں ذکر کرتے ، اور میں دیکھتا ہوکہ آپ نے اس رسالہ میں آں حضرت کےاسم شریف کے ساتھ صلوۃ وسلام کا التزام کررکھا اہے، در آں حالیکہ آپ کےعلاوہ بعض لوگ اس کا التزام نہیں کرتے ، اور غفلت کرجاتے ہیں، اور بعض حضرات توحرف ص یا حروف صلعم یا صللم لکھنے پرکفالت کرتے ہیں ۔
علامہ نےفرمایا : پورا درود وسلام ذکر کرنے کےبجائے صرف ان حروف پرالتفا کرنا سخت قبیح اورمعیوب ہے۔آں حضرت ﷺ کےمقدس نام کےبعد پورا صلوۃ وسلام ذکر کرنا ضروری ہے۔جیسا کہ معتبر اورمعتمد علمائےسلف نےاس کا التزام کیا ہے۔پھر ممدوح نے چند متقد مین علماء کےنام گنائے اور ان علماء نےاس بارے میں کچھ لکھا ہے اس کو بھی ذکر کیا ہے۔پھر میں نے 19 ؍مارچ کومکہ میں سلطان سے قصر شاہی میں اخبار نویسوں کے وفد کےساتھ ملاقات کی ۔ہم شاہ سے دیر تک بات کرتے رہے ۔اثنائے گفتگو میں میں نے جلالۃ الملک سےعرض کیا میں دیکھتا ہوں کہ آں حضرت ﷺ کااسم مبارک جب آپ کی زبان پر آتا ہے، آپ ضرور درود وسلام بھیجتے ہیں۔لیکن باوجود اس کے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہابی آ ں حضرت ﷺ پر صلوۃ وسلام نہیں بھیجتے ۔جلالۃ الملک نےفرمایا : بڑے تعجب کی بات ہے۔آخر ہم کیوں آں حضرت ﷺ پردرود نہیں بھیجیں گے۔اللہ تعالی کےبعد کون ہے کہ ہم اللہ کےپیارے نبی ﷺ سےبھی زیادہ اس سے محبت کریں گے ۔خدا کی قسم آں حضرت ﷺ دنیا کی تمام چیزوں سےہم کومحبوب اور پیارے ہیں ۔ہم اپنے بال بچوں سےزیادہ آپ ﷺ کےدین کی حفاظت کرتے ہیں اوراس کی طرف سے مدافعت ضروری سمجھتے ہیں۔ہمارےناموس پر، ہمارے حریم پر، ہماری عزت وآبرو پرحملہ جاوے اس سےہم کو ناقابل برداشت تکلیف پہنچتی ہےاور ہمارا جذبہ حمیت وانتقام بھڑک اٹھتا ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی کہ درجہا د رجہ زیادہ آں حضرت ﷺ کی شان میں معمولی گستاخی کرنے ، آپ ﷺ کی تنقیض اورآپ کواس مرتبہ سےگھٹانے سے جس پر آپ ﷺ کواللہ نےسرفرازفرمایا ہے، ہمارے جذبہ محبت وحمیت وغیرت کو ناقابل برداشت ٹھیس لگتی ہےاور اس کو ہم کسی طرح بھی گوارا نہیں کرسکتے ۔بلکہ ہم آں حضرت ﷺ کواپنی جان ، اپنے عزیز واقارب ، اپنے بچوں اوربیویوں ، دولت وزر ، عزت وآبرو سے زیادہ عزیز اور پیارایقین کرتے ہیں، اور ہم توآپﷺ کے خلفاء راشدین اور ہرخادم اسلام خصوصا ائمہ اربعہ سے غایت درجہ محبت رکھتے ہیں اوران کا انتہائی احترا م کرتے ہیں اجمعین ۔
جلالۃ الملک نےفرمایا : ہم حق کےطالب اورمتلاشی ہیں ، پس حق اورصحیح بات ہم کوجہاں بھی ملے گی قبول کرلیں گے ۔خواہ وہ کسی مذہب کی ہو اور جس عالم کی فرمودہ ہو، ہم امت کے کسی ایک غیر معصوم معین عالم کواپنا مقلد سمجھ کر، اس کی ہربات کوخواہ وہ غلط ہویا صحیح ، واجبالعمل نہیں سمجھتے اورایسا کرکے لانفرق بین احدکےمرتکب نہیں بننا چاہتے ۔ہم تفسیر ابن کثیر بہت پسند کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ شغف رکھتے ہیں حالانکہ اس کے مصنف حافظ عمادالدین ابن کثیر شافعی المذہب ہیں۔ہاں ہم باجود اس کےاما م احمدبن حنبل کی طرف اجتہادی مسائل رجحان اورمیلان رکھتے ہیں ، تومحض اس وجہ سے کہ اور ائمہ کی نسبت ان کا مسلک ،احادیث رسول ﷺسے قریب ترہوتا ہےاور وہ دیگر اماموں کی نسبت ، حدیث کی طرف اپنی توجہ زیادہ رکھتے ہیں ۔پس کیا اس کےبعد بھی ہمارے متعلق یہ پروپیگنڈا درست ہوگا کہ ہم ائمہ مجتہدین سے دشمنی رکھتے ہیں اور آں حضرت ﷺ پردرود وسلام نہیں بھیجتے حالاں کہ آپ ہی کےذریعہ ہم کودین پہنچا جس کی اتباع سےہم کو خدا کی اطاعت وعبادت نصیب ہوئی۔پھر جلالۃ الملک نےدیر تک خاص اسی مسئلہ پرروشنی ڈالی دریں اثنا آپ کےچہرے پر تاثر کی کیفیت ظاہر اور آشکار ا تھی ۔،،
ایڈیٹر ’’المنار ،، فرماتے ہیں:
’’ پھر میں نے مدینہ منورہ میں حضرت شیخ عبدالعزیز بن ابراہیم امیر مدینہ سے ملاقات کی ۔دیکھا کہ وہ بھی آں حضرت ﷺ کےنام کے ساتھ بالالتزام درود وسلام ذکر کرتے ہیں۔میں نے ان سےبھی مخالفین وہابیت کا الزام مذکو ر ذکر کیا ۔امیر مدینہ نے سختی کے ساتھ اس الزام کی تغلیط اورتردید کی اور آں حضرت ﷺ پر درود بھیجنے کےوجوب کےمتعلق مفصل بحث سنائی۔جس کاایک حصہ یہ ہے کہ ہم نجد ی وہابی آں حضرت ﷺ پردرود وسلام بھیجنے کو رکوع ،سجدہ ، قیام ، قرات قرآن کی طرح نماز کا رکن سمجھتے ہیں ۔بغیر درود وسلام کےہمارے نزدیک نماز صحیح اور کافی نہیں ہوگی درانحالیکہ بعض ائمہ ( مالک وابوحنیفہ) اس کو نماز کا رکن نہیں کہتے بلکہ سنت کہتے ہیں ، ہمارا یہ مذہب مخالفین وہابیت کےالزام کی تردید اور ابطال کےلیے کافی ہےبلکہ حجت قطعی ہے۔،،
ناظرین کرام ! وہابیت کےتین بڑے قطب اورارکان کا یہ عقیدہ اورفیصلہ ہےکہ جلالۃ الملک المعظم ( ایدہ اللہ بنصرہ وخلد ملکہ) اور ان کی حکومت کےایک بزرگ ترین عالم شیخ عبداللہ بن بلیہد اورحکومت سعودیہ کے اشرف ترین صوبہ مدینہ منورہ کے گورنر شیخ عبدالعزیز بن ابراہیم ،تینوں کی زبانی اور ان کی تحریر سے روز روشن کی طرح ثابت ہوگیا کہ وہابیوں کےمتعلق یہ الزام کہ وہ آں حضرت ﷺ پردرو د و سلام نہیں بھیجتے ، سفید جھوٹ اور شرمناک بہتان ہے۔
آخر میں ، میں ناظرین سےدرخواست کرتا ہوں کہ اگر وہابیوں کےعقائد معلوم کرنے ہوں توعلامہ شیخ عبدالوہاب نجدی کی ’’ کتاب التوحید ،، اور ’’ تحفہ وہابیہ ،، وغیرہ کامطالعہ کریں ۔ان کتابوں کامطالعہ کرنے سےان الزامات اوراتہامات کی حقیقت کھل جائے گی ۔جونجدیوں کو بدنام کرنے کےلیے پھیلائے جاتے ہیں۔بلکہ میں تو آپ سےکہوں گا کہ اگر آپ کواپنا ایمان عزیز ہے،توآپ اسلام کی اصلی تصویر اوراس کاصحیح نقشہ دیکھنا چاہتے ہیں ،جو آں حضرت ﷺ اورخلافت راشدہ کےزمانوں میں موجود تھا ۔جورائے وقیاس ،غلط توجیہات اورباطل تاویلات ،علماء سوء کےجدل وخلافت سےپاک اورمحفوظ ہے۔جوسچے معنی میں دین یُسر اورملت سمحہ ہے۔جوفقہا کی موشگافیوں سے پیدا ہونے والے الجھا ؤ اور پچیدگیوں سےبری ہے۔غرض یہ کہ اگرآپ ٹھیٹھ او رسچا اسلام دیکھنا چاہتے ہیں تو ،علامہ ابن تمیہ اور ان کے شاگردرشید علامہ ابن القیم کی تصانیف بنظر غائر پڑھیں ۔ان کی اکثر تصانیف کا اردو میں ترجمہ ہو چکاہے۔ان کتابوں کےمطالعہ سے آپ پریہ بات روشن ہوجائے گی کہ علماء سوء نےاپنی موشگافیوں اور مردود توجیہات وتاویلات سے اسلام کو کس قدر مشکل اور پچیدہ مذہب بنا دیا ،اور یہ کہ انہوں نے احادیث رسول اللہ ﷺ وظواہر نصوص قرآنیہ سےاعراض کرکے ، اسلام کی اصلی تصویر پر موٹا اورغلیظ پردہ ڈال دیا ہے۔علامہ ابن القیم کی ایک جلیل القد کتاب ’’ اعلام الموقعین ،، کا ترجمہ نہیں ہوا تھا ۔الحمدللہ کہ اس کمی کومولانا محمدصاحب ایڈیٹر اخبار محمد نےپوری کردیا ۔یوں توعلامہ محمدوح کی ہرکتا ب جو اہر پاروں اوربےمثل تحقیقات کاخرانہ ہے۔مگر ان تمام میں غالبا ’’اعلام ،، کادرجہ سب سے بڑھا ہوا ہے۔اس کتاب کی جلالت وعظمت کا انداز ہ لگانا ہو، توحضرت مولانا ابوالکلام آزاد کےان دوگرامی ناموں سےکیجیے ۔جن میں سے ایک تومولانا ممدوح نے کسی شخص سےترجمہ کی خبر سن کر مولانا محمدصاحب کولکھا تھا ۔آپ ترجمہ کی خبر پر انتہائی خوشی کااظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ آپ اس طرف متوجہ ہوئے ہیں ۔تومیں کہوں گاکہ آپ نےایک نہایت موزوں کتاب ترجمہ کےلیے منتخب کی ہے اللہ تعالی آپ کومزید توفیق کا ر عطا فرمائے۔مباحث فقہ و حدیث میں متاخرین کاکافی ذخیرہ موجود ہے۔لیکن اس سے بہتر اوراصلح کتاب کوئی نہیں ہے، اسے اردوںمیں ترجمہ کردینا ۔اس گوشے کی تمام ضروریات بیک دفعہ پوری کردینی ہیں ، خصوصیت کےساتھ اس کی ضرورت انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ کےلیے ہےاس طبقہ میں بہت سےلوگ مذہبی ذوق سےآشنا ہوچکے ہیں لیکن صحیح مسلک کی خبر نہیں رکھتے اورعربی سےناآشنا ہونے کی وجہ سے براہ راست مطالعہ نہیں کر سکتے ، اگر ’’ اعلام،، اردو میں شائع ہوگئی ،تو ان کی فہم وبصیرت کےلیے کافی مواد مہیا ہوجائے گا۔میں نہایت خوش ہوں گا اگر ترجمہ کی اشاعت میں آپ کوکچھ دےسکوں ۔،،
اور دوسرا گرامی نامہ حضرت مولانا آزاد نے ’’ اعلام ،، کےشائع شدہ دوحصوں کےملاحظہ فرمانے کےبعد تحریر فرمایا ہے، آپ لکھتے ہیں:’’ اعلام الموقعین کےترجمہ کے دوحصے پہہچے ، یہ دیکھ کرنہایت خوشی ہوئی کہ آپ اس ترجمہ شائع کررہے ہیں، مباحث فقہ وحدیث و حکمت تشریع اسلامی میں متاخرین کی کوئی کتاب اس درجہ محققانہ اورنافع نہیں ہے۔جس درجہ یہ کتاب ہے، عرصہ ہوا میں نے بعض عزیزوں کو جو ترجمے کےکام سےدلچسپی رکھتے ہیں۔اس کتاب کےترجمہ کامشورہ دیا تھا لیکن انہوں نے صاحب اعلام کےبعض دیگر مختصرات کوترجیح دی ۔اللہ تعالی آپ کوجرائے خیردے کہ اس مفید خدمت دینی پرمتوجہ ہوئے ہیں۔میں ان تمام لوگوں کو جو مذہبی معلومات کاشوق رکھتے ہیں او راصل عربی کامطالعہ نہیں کرسکتے ۔مشورہ دوں گا کہ اس کتا بکامطالعہ ضرور کریں ، خصوصیت کےساتھ انگریزی تعلیم یافتہ حضرات کواس کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی پیدا ہوگئی ہےجو مذہبی معلومات سےشغف رکھتے ہیں، لیکن چوں کہ اسلام کے اندرونی مذاہب ومشارب کی پچیدگیوں سےباخبر نہیں ہیں، اس لیے بسا اوقات ان کا مذہبی شغف غلط راہوں میں ضائع جاتا ہےاس کتاب کا مطالعہ ان پرواضح کردے گا کہ حکمت ودانش کی حقیقی راہ کن لوگوں کی راہ ہے؟ متبعین کتاب وسنت کی؟ یااصحاب جدل وخلاف کی ۔،،
مولانا آزاد کےان دونوں گرامی ناموں سےکتاب کی اہمیت پرکافی سےزیادہ روشنی پڑتی ہےاس لیے ہم اس سےزیادہ اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہ سمجھےہوئے ’’محدث ،، کےناظرین سے پرزور درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب کودفتر اخبار محمد ی دہلی باڑہ ہند وراؤ سےمنگا کر ضرور مطالعہ فرمائیں اوراپنے دوست احباب کوبھی اس کی ترغیب دلائیں ۔اس کتا ب کےاب تک تین حصے شائع ہوچکے ہیں۔پہلے حصہ کی قیمت 14 دورسرے کی 8 تیسرے کی 8 ہے۔
صفحات بالترتیب ص: 72، ص : 148 ،: 152، سائز اخبار محمدی ، کتابت وطباعت عمدہ اورسرورق دیدہ زیب ہے۔
( محدث دہلی ، ج : 4 ، ش: 3 ربیع الآخر 1355 ھ ؍ جولائی 1936 ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب