سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12)طریقہ توسل آں حضرت ﷺ یا صحابہ کرام سےثابت و منقول ہے؟

  • 15838
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1826

سوال

(12)طریقہ توسل آں حضرت ﷺ یا صحابہ کرام سےثابت و منقول ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سوال صرف یہ ہےکہ کیا اس طریقہ کا توسل آں حضرت ﷺ یا صحابہ کرام سےثابت ومنقول ہے؟ کیا خیرالقرون ( قرون ثلثہ مشہور ولہا بالخیر ) میں یہ طریقہ توسل رائج تھا؟ اگر نہیں تھا تواس کےمحدث اور بدعت  ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔اور کیا اس لیپا پوتی کےبعد بھی عوام کالانعام کی توحید کےمحفوظ رہنے کی توقع ہوسکتی ہے۔قائلین توسل مروجہ کےتمام دلائل کے جوابات اوران کی پوری تردید کےلیے مندرجہ ذیل کتابیں ضرور ملاحظہ کی جائیں کہ وہ اس موضوع پر بہترین کتابیں ہیں۔

(1)صيانة الانسان عن وسوسة الشيخ دحلان ( مطبوعه مطبعة المنار مصر) للعلامة الشيخ محمد بشير السهواني-

(2)لتوسل والوسيلة للحافظ الاامام ابن تيمية-

(3)البروق النجدية للشيخ عبدالله القصيمي-

(4)الصارم المنكرفي الرد علي السبكي للشيخ عبدالهادي المقدسي.

(مصباح بستی جمای الاولی 1371ھ) 

٭ جمادی الاول کےپرچے میں توسل کی بابت جوفتویٰ شائع ہوا ہے اس کےمتعلق چند باتیں عرض ہیں:

(1)  جناب مجیب نے ص: 17 پرطبرانی والی روایت کےمتعلق لکھا ہے: ’’لأن في سنده روح بن صلاح وهو ضعيف،، حالانکہ روح بن صلاح اس رویت میں راوی ہےہی نہیں بلکہ روح بن القاسم ہےملا حظہ ہوطبرانی صغیر 1 ؍ 178 پھر اس حدیث کےآخر میں لکھاہے :’‎’ والحدیث صحیح ،،

(2)  ضعیف حدیث اس وقت قابل عمل نہیں ہوتی، جب اس کےخلاف صحیح حدیث  موجود ہو۔آپ مہربانی فرما رکر قرآن شریف کی کوئی آیت یا کوئی حدیث باین الفاظ پیش کریں کہ دعا کےاندر کسی کا وسیلہ نہ لو، جب ان الفاظ کی حدیث یا قرآن کی آیت نص صریح مل جائے۔تویقینا ضعیف حدیث کہہ کرٹال سکتے ہیں۔مخالف کوبھی تسلی اسی وقت ہوسکتی ہےجب کہ ہم بیش کریں ۔جب نص نہیں ہےتو یہ حدیثیں قابل عمل ہیں اورمخالف کوکچھ نہیں کہا جاسکتا۔

(3)  طبرانی کی وہ حدیث جو 2؍ 12 پرحضرت عمر ﷜ سےہےوہ بھی صاف دلیل ہےتوسل مروجہ پر۔گووہ روایت ضعیف ہے ،لیکن جب تک نص صریح صاف دلیل ممانعت کی نہ ہو، جرح کرنی فضول ہے۔

(از مولوی عبداللہ صاحب خطیب جامع مسجد اہل حدیث ، سی بلاک ڈیرہ غازی خاں)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1)بے شک طبرانی کی اس روایت کی سند میں روح بن صلاح نہیں ہیں جن کی ابن عدی نے ’’ الکامل،، میں تضعیف کی ہےبلکہ روح بن القاسم ہیں جوصحیحین کےرجال سےہیں اوربالاتفاق ثقہ ہیں ۔

استفسار کاجواب لکھے وقت اصل کتاب ( المعجم الصغیر اللطبرانی ) کی طرف مراجعت نہیں کی جاسکی تھی ، اورنہ اس  روایت پرامام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کےمفصل کلام کوبالاستیعاب بغور پڑھا گیا تھا، بلکہ یہ تنقید علامہ سہسوانی کےکلام پراعتمام کرکے لکھ دی گئی تھی ۔ علامہ ممدوح اس حدیث سےتوسل بالمیت پراستدلال کےجواب میں تحریر فرماتےہیں:’’هذا الحديث قال الطبراني عبقبه : والحديث صحيح بعدذكر طرقه التي روي بها، كذا في مجمع الزوائد ( 2/ 278/ 279) ، والترغيب والترهيب للمنذري 1/ 208/ 209) ، ولكن في سنده روح بن صلاح ، وقد ضعفه ابن عدي كما تقدم ،، ( صيانة إلانسان ص: 133) اوربلا شبہ یہاں علامہ سےتسامح ہوگیا ہے، عفا اللہ عنی وعنہ .

لیکن اس سند میں روح بن القاسم واقع ہونے کےباوجود ہمارے نزدیک طبرانی کی یہ روایت صحیح نہیں ہے۔بلکہ اس کے حسن ہونے میں بھی ہم کوکلام وتاویل ہے،اورطبرانی کے قول ’’والحدیث صحیح ،، کایہ مطلب نہیں ہےکہ جس سند اور جن الفاظ سے طبرانی نےیہ حدیث روایت کی ہے اسی طریق ومتن سے یہ حدیث صحیح ہے کما توھمتم بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ اصل حدیث یعنی مرفوع صحیح ہے كما يدل عليه سياق كلامه ، وقد صححه ايضا الترمذي والحاكم ووالفقعه الذهبي ، وقد اقتصر ا علي رواية المرفوع.

یہ حدیث دو طرح مروی ہے: مطولاً:(ای بذکر قصة الرجل الذي كان يختلف إلي عثمان بن عفان في حاجة له، وقد احتج به من قال بالتوسل بالنبي ﷺ بعد وقاته ، وهذا هوالذي ننكره) اور مختصراً ( اي بدون القصة المذكورة ، بل مقتصرا علي ذكر المرفوع ، وليس فيه إلا التوسل بد عائه  صلي الله عليه وسلم وشفاعته في حياته ولانزاع فيه) مطول حديث كوصرف بيهقي ( في دلائل النبوة ) اور طبراني ( في المعجم الصغير ) نے روایت کیا ہے ، اورمختصریعنی محض حدیث مرفوع کواحمد ( 4؍ 138) ، ترمذی ( فی الدعوات ) ، نسائی ( فی الکبریٰ، ابن ماجه ( فی الصلاۃ ) ،حاکم ( 1؍ 819؍ 526) ، ابن السنی ص: 202) بیہقی ( فی دلائل النبوۃ ) ،ابو بکر بن خثیمه ( فی التاریخ) نےروایت کیا ہے ۔ اختلاف طرق کی تفصیل ذیل کےجدول میں ملا حظہ فرمائیں:

(1)شعتة عن ابي جعفرالخطمي المدني عمير بن يزيد عن عمار بن خزيمة عن عثمان بن حنيف .(احمد 4/ 138،ترمذي كتاب الدعوات باب 119،( 3578) 5/579) نسائي، ابن ماجه ( كتاب اقامة الصلاة –ولسنة فيها ، باب ماجاء في صلاة الحاجة ( 1375) 1/ 441.) ، حاكم 1/ 526، بيهقي ، ابن السني).

(2)حماد بن سلمة عن ابي جعفرالخطمي المدني عمير بن يزيد عن عمار بن خزيمة عن عثمان بن حنيف ( احمد 4/ 138، ابن السني)

(3)هشام الدستوائي عن ابي جعفر الخطمي المدني عمير بن يزيد عن عمار بن خزيمة عن عثمان بن خنيف . ( ابوبكر بن ابي خيثمة).

(4)احمد بن شبيب عن ابيه شبيب بن سعيد عن روح ابن القاسم عن ابي جعفر الخطمي المدني عمير بن يزيد عن ابي أمامة بن سهل عن عثمان بن حنيف . ( بيهقي ، حاكم 1/526، ابن السني)

(5)عباس ب محمد عن عون بن عمارة عن روح بن القاسم عن ابي جعفر الخطمي المدني عمير بن زيد عن ابي أمامة بن سهل عن عثمان بن حنيف.  (6) (حاكم 1/526).

طرق حديث مطول :

(1)اسمعيل واحمد ابنا شبيب عن شبيب عن روح بن القاسم عن ابي جعفر الخطمي المدني عن ابي امامة بن سهل عن عثمان بن حنيف.

(2)عبدالله بن وهب عن شبيب عن روح بن القاسم عن ابي جعفر الخمطمي المدني عن ابي امامة بن سهل عن عثمان بن حينف (طبراني 1/183)

ہمارے نزدیک حدیث مختصر(مرفوع ) صحیح اورمحفوظ ہے۔جس سےصرف زندہ شخص کی دعا اورسفارش سےتوسل کاثبوت ہوتا ہے اوراس کاکوئی بھی منکر نہیں ۔اورمطول روایت جس سےتوسل بالمیت پریعنی میت کی ذات یاناکووسیلہ بنانے پرستدلال کیاجاتا ہے ، کےمحفوظ ہونے میں بچند وجوہ کلام ہے۔

(1)  شبیب بن سعید حبطی عن روح کا اس زیادۃ ( قصہ موقوفہ) کےروایت کرنے

 میں منفرد ہونا اورشعبہ ،حماد بن سلمہ ، ہشام دستوائی جوشبیب اور روح بن القاسم دونوں سےاوثق ااحفظ ہیں ، ان میں سے کسی کا اس قصہ کورویت نہ کرنا ۔

(2)  امام احمداور اہل سنن (ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ) اورابن السنی کاحدیث

 مرفوع کے روایت کرنے پراقتصاراور مطول روایت سے اعراض ۔

(3)  امام حاکم ( جن کا حدیث کی تصحیح میں متساہل ہونا مشہور ومعروف ہے) کا احمد

 بن شبیب عن شبیب روح کےطریق سے حدیث مرفوع روایت کرنے کےباوجود قصہ موقوفہ کوحذف کردینا ۔

(4)  خاص’’ طبرانی،، کی روایت کےضعیف ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ ابن

وہب کے طریق سےشبیب کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔حافظ تقریب ( ص: 143) میں لکھتے ہیں ’’ شبيب بن سعيدي التميمي الحبطي البصري، ابو سعيد لابأس به، من رواية ابنة احمد عنه ، لا من رواية ابن وهب ،، انتهي .اورعدی فرماتے ہیں:’’ حدث عنه ابن وهب بالمنا كير، ولعل شبيبا لما قدم مصرفي تجارته،كبت عنه ابن  وهب من حفظه ووهم ،، انتهي( تهذيب التهذيب 4/237)

اور اگر مطول  روایت کوسند محفوظ تسلیم کرلیا جائے تب بھی اس سے توسل بالمیت پراستدلال دووجہوں سے صحیح نہیں:

پہلی وجہ: یہ ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف ﷜ سے دعا اور سفارش کی درخواست کی تھی ۔آپ ﷺ نےاس کودعا بتائی اوردعا  میں’’ اللہم فشفعہ فی،، کہنے کام حکم دیا ، نابینا نے آپ ﷺ کی تعلیم کردہ دعا استعمال کی اور خود آپ ﷺ نےبھی اس کی درخواست قبول فرماتے ہوئے اس کےلیے اللہ تعالی سےدعا اور سفارش کی ۔ آپ ﷺ کی  دعا کی برکت سےاس کی بینائی لوٹ آئی تویہ آں حضرت ﷺ کی زندگی میں آپ کی دعا اورسفارش کووسیلہ بنانا ہوا، نہ آ پﷺ کی وفا ت کے بعد آپ ﷺ کی ذات یانام کو وسیلہ بنانا ہوا۔اوریہ معلوم ہےکہ حضرت عثمان بن حنیف ﷜ اس ضرورت مند کوجوامیر المومنین عثمان بن عفان ﷜ کے پاس اپنی حاجت براری کےلیے جاتا تھا:، ادھوری دعا سکھائی۔یعنی :صرف ’’ اللهم إني اسئلك وأتوجه أليك بنبينا محمد نبي الرحمة ، يا محمد إني في وشفعني فيه’’ اللهم فشفعه في،، کہنا بےمعنی سی چیز ہوگی اورظاہر ہےکہ حضرت عثمان بن حنیف ﷜ کایہ فتویٰ میت کوسیلہ بنانے کافتویٰ ہےجس کاحدیث مرفوع سے قطعا ثبوت نہیں ہوتا ، اورتمام فقہاء محدثین کےنزدیک یہ  مسلم ہےکہ صحابی کی روایت اس کی درایت اورفہم پرمقدم ہوتی ہےلہذا عثمان بن حنیف ﷜ کے  اس فتویٰ سےتوسل بالمیت کی مشروعیت پراستدلا ل صحیح نہیں۔

دوسری وجہ: یہ کہ اگر عثمان بن حنیف ﷜ آں حضرت ﷺ کی وفات کےبعد آپ سےتوسل کےقائل  تھے ۔توتمام صحابہ وتابعین اس کے خلاف تھے۔حضرت عمر﷜ نے عام الرمادۃ میں استسقاء کےموقع پربجائے آں حضرت ﷺ سےتوسل کے،حضرت عباس ﷜ کی دعا سے توسل کیا اور حضرت معاویہ ﷜ نے اپنی خلافت میں یزید بن الاسود کی دعا کوسیلہ بنایا اور تمام صحابہ وتابعین نے دونوں موقعوں پر سکوت وضا اختیار کیا ، اور تسلیم واقرار کےذریعہ حضرت عمر﷜ ارو حضرت معاویہ ﷜  ک فعل کی تصدیق  وتائید کردی۔ جس سے معلوم ہوا کہ توسل بالمیت کی عدم مشروعیت پرتمام صحابہ تابعین کااجماع سکوتی ہوگیا ہے۔اس اجماع اورحدیث مرفوع کے مقابلہ میں عثمان بن حنیف ﷜ کافہم جس پرکوئی شرعی دلیل موجود نہیں ، کیوں کر قابل تسلیم ہوسکتا ہے ۔

امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

ومن قال من علماء ، أن قول الصحابي حجة، فأنما قاله إذا لم يخالفه غيره من الصحابة ، ولا عرف نصي يخالفه ، ثم إذا اشتهر ولم ينكروه كان اقرارا علي القول ، فقد يقال هذا إجما ع اقراري ، إذا عرف أنهم أقروه ولم ينكره أحدمنهم ، وهم لايقرون علي باطل ، وأما إاذ لم يشتهر ،فهذا إن غيره أو خالفه ، لم يجزم بأحد هما، ومتي كانت السنة تدل علي خلافة كانت الحجة بالاتفاق ، وأما إذا لم يعرف بل وافقه غيره أو خالفه ، لم يجزم بأحد هما، ومتي كانت السنة تدل علي خلافة ، كانت الحجة في سنة رسول الله ، لا فيما يخالفهما بلا  ريب عند أهل العلم ، وإذا كان كذالك ، فمعلوم أنه إذا أثبت عن عثمان بن حنيف أو غيره ،  أنه جعل من المشروع المستحب ، أن يتوسل بالنبي  صلي الله عليه وسلم  بعد موته ، من غيرأن يكون النبي  صلي لله عليه وسلم داعيا له ولا شافعا فيه ، فقدعلمنا أن عمر وأكابرالصحابة لم يروا هذا مشروع بعد مماته ، كما كان يشرع في حياته، بل كانوا في الاستقاء في حياته يتوسلون به، فلما مات لم يتوسلوابه ، بل قال عمر في دعا ءه الصحيح المشهور، الثابت باتقاق أهل العلم ، بمحضر من المهاجرين ولأنصار في عام الرمادة المشهورة ، لما اشتد بهم الجدب، حتي حلف عمر لايأكل سمنا ، حتي يخصب الناس ، ثم لما استسقي بالناس قال : اللهم إنا كنا إذا أجد بنا نتو سل إليك بنبينا ، فبسقينا ، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا ، فيسقون ، وهذا دعا ء أقره عليه جميع الصحابة، لم ينكره أحد مع شهرته ، وهو من أظهرالا  جماعات الإ قرارية ’ ودعا بمثله معاوية ب ابي سفيان في خلافتة ، لما استسقي بالناس  فلو كان توسلهم بالنبي  صلي لله عليه وسلم  بعد مماته كتوسلهم في حياته ، لقالوا كيف نتوسل بمثل العباس ويزيدبن الاسود ونحوهما  ، ونعدل عن التوسل  بالنبي  صلي لله عليه وسلم الذي هوا فضل الخلا ئق، وهو أفضل الوسائل وأعظمها عندالله فلما لم يقل ذلك أحدأن  المشروع عندهم التوسل بدعا ء المتوسل به لا بذاته.

وحديث الأعمي حجة لعمر وعامة الصحابة ، فأنه أمر الاعمي أن يتوسل إلي الله تعالي بشفاعة النبي صلي الله عليه وسلم ودعا ئه لا بذاته ، وقال له في الدعا ء قل:اللهم فشفعه في، وإذا قدر أن بعض الصحابة امر عيره أن يتوسل بذاته لا بشفاعته ولم يأمر بالدعا ء المشروع بل ببعضه ، وترك سائر المتضمن للتوسل بشفاعته، كان مافعله عمر بن الخطاب هوالموافق لسنة رسول لله  صلي الله عليه وسلم ، وكان المخالف محجوباً بسنة رسول لله  صلي لله عليه وسلم، وكان الحديث  الذي رواه عن النبي  صلي لله عليه وسلم حجة عليه لاله، والله اعلم،، انتهي (التوسل والوسيلة ص: 104 ، 105، المكتب الاسلامي ).

(2)رویت مذکورہ کامرفوع حصہ صحیح ہے، لیکن ای سے توسل بدعا ئے الحی وشفاعۃ کا ثبوت ہوتا ہے نہ توسل بالمیت کا ، بالمیت کا ،اور موقوف حصہ جس طریق سےمروی ہےوہ غیر محفوظ ہےاور  اگر محفوظ تسلیم کرلیا جائے تب بھی وہ توسل بالمیت کےلیے حجت شرعی نہیں ہو سکتا ، اس  لیے کہ وہ محض ایک صحابی کا فہم وفتویٰ ہےجواس کی روایت کردہ مرفوع حدیث اور صحابہ وتابعین کےاجماع سکوتی کے محالف ہے، اورحجت شرعی صرف قرآن اورحدیث صحیح یا حسن ہے۔

اس دوسرے نمبر میں آپ نےضعیف حدیث کےمتعلق ایک مجمل بلکہ غلط بات لکھ کر مبتدی عین کی پوری ترجمان بلکہ وکالت کاہےیاآپ کومغالطہ ہوگیا ہے ۔سطورذیل میں ضعیف حدیث کےمتعلق ضروری تفصیل ملا حظہ کیجیے ۔امید ہےآپ کوتسلی ہوجائے گی اور غلط فہمی دور ہوجائے گی :

(1)  امام ترمذی سےپہلے محدثین باعتبار صحت وقوت وضعف کےحدیث کی دو

قسم کرتے تھے: (1) صحیح ۔ (29 ) ضعیف ۔ پھر ضعیف کی دو قسم کرتے تھے :

(1)ضعيف متروك غير محتج به، اي ضعيف ضعفا يوجب تركه، وهو الواهي.

(2) ضعيف ليس بمتروك ، اي  ضعيف ضعفا لا يمتنع العمل به، وهو يشبه الحسن في اصلاح الترمذي.(منهاج السنة والتوسل ص: 83) واضح ہوکہ ضعیف کی دوسری قسم میں حسن لذاتہ اورحسن لغیرہ  دونوں داخل ہیں۔

امام ترمذی پہلے شخص ہیں جہوں نے حدیث کی تین قسمیں کی ہیں ولامشاحۃ فی الاصطلاح :

(1)صحیح ، (2) حسن، (3) ضعیف ۔اس تقسیم میں  ضعیف سے مراد  تقسیم اول میں ضعیف  کی پہلی قسم اورحسن سے مراد ضعیف کی دوسری قسم ہے۔امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:’’اول من عرف أنه قسم الحديث ثلثة أقسام ، صحيح وحسن وضعيف ، وهو ابو عيسي الترمذي في جامعه، والحسن عنده ما تعددت طرقه ، ولم يكن في رواية متهم (بالكذب ) وليس بشاذ، فهذا وأمثاله يسميه أحمد ضعيفاو يحتج به، ولهذا مثل احمد الحديث الضعيف الذي يحتج به، بحديث عمروبن شعيب عن ابيه عن جده وحديث ابراهيم الهجري ونحوهما،، انتهي ( التوسل والوسيلة ص: 83)

(2)احکام خمسہ ( 1۔وجوب،2۔ندب، 3۔حرمۃ،4۔کراہۃ، 5۔اباحۃ) میں صحیح اور حسن لذاتہ کی طرح حسن لغیرہ بھی جب کہ متعددومختلف طرق سے مروی ہومحتج بہ اور معمول بہ ہوتی ہے۔

قال النووي في بعض الأحاديث ، وهذه إن كانت اسانيدمفرد اتها ضعيفة ، مجموعها يقويٰ بعضه بعضا ، ويصيرالحديث حسنا ويحتج به، وسبقه البيهقي في تقوية الحديث بكثرة الطرق الضعيفة ، وظاهر كلام ابي الحسن بن القطان يرشدإليه، فانه قال:هذا القسم لايحتج به كله، بل يعمل به في فضائل الأعمال ، ويتوقف عن العمل به في الأحكام ، إلا إذا كثرت طرقه،، الخ وقال العلامة البوفالي في عون الباي نقلا عن النووي: ’’ الحديث الضعيف عند تعددالطرق، ير تقي عن الضعف إلي الحسن ، ويصير مقبولا معمولا به،، انتهي لیکن یہ اس وقت ہےجب کہ ان ضعیف روایتوں کاضعف صدوق راوی کے سوء حفظ کی وجہ سے ہو، یا ارسال یا تدلیس یا جہالۃ کی وجہ سے ہو، اور اگر ای کے فسق یا کذب کی وجہ سےہو ،توایسی ضعیف روایتوں کی کثرت سے ، وہ حدیث حسن کےدرجہ کونہیں پہنچ سکتی (تدریب الراوی 1؍ 176؍ 177)۔

اور ضعیف کی پہلی قسم یعنی: متروک واہی پر احکام اورحلال وحرام میں کوئی بھی اعتماد اور اس سے احتجاج کا قائل نہیں ہے۔امام نووی  فرماتے ہیں ’’إن الأئمة لا يرون عن الضعفاء ، ( أي الذين لا يحتج بهم) شيئا يحتج به علي انفراده في الأحكام ، فإن هذا شئي لا يفعله إمام من الأئمة المحدثين ، ولا محقق من غيرهم من العلماء ، وأما فعل كثيرين من الفقهاء أو أكثر هم ذلك واعتماد هم عليه، فليس بصواب بل قبيح جدا،، الخ ( شرح مسلم  1/ 126) اورامام ابن تيمیہ لکھتے ہیں’’ ومن نقل عن أحمد أنه كان يحتج بالحديث الضعيف الذي ليس بصحيح ولا حسن ، فقد غلط عليه،، التوسل والوسيلة  82) اورجن ائمه ( امام احمد ابوداؤد وغيرهما) سےیہ منقول ہےکہ وہ حدیث ضعیف کورائے وقیاس پرمقدم کرتے تھے تووہاں ضعیف سےمراد واہی اور متروک نہیں ہے بلکہ ضعیف کی دوسری قسم مراد ہے۔

حافظ عراقی ’’الفیہ ،، میں لکھتے ہیں:

كان أبوداؤد اقوي ماوجد                يرويه والضعيف حيث لا يجد

في الباب غيره فذاك عنده                من رأي اقوي قاله ابن منده

قال السخاوي في شرحه ( 1/ 82) :’’ والضعيف أي من قبل سوء حفظ راويه ونحو ذلك ، كالمجهول حال أو عينا، لا مطلق الضعيف الذي يشمل ما كان راويه  متهما بالكذب ،، انتهي . وقال ابن تيمية في منهاج السنة :’’ وأما نحن فقولنا أن الحديث الضعيف خير من الرأي ، ليس المراد به الضعيف المتروك ، لكن المرا دبه الحسن ، كحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده  ، وحديث ابراهيم الهجري و امثالهما ممن يحسن الترمذي حديثه او يصححه ،، الخ

(3)اور دجن بعض ائمہ نے حدیث کی پہلی قسم یعنی متروک کابشرطیکہ اس کاکذب وبطلان معلوم نہ ہو۔ احتجاج واستدلال کےعلاوہ کسی اور حیثیت سےاعتبار کیاہو ، انہوں نے اس کےلیے حسب ذیل شروط مقررکیے ہیں:

(1)       وہ حدیث ترغیب وترہیب فضائل اعمال سےتعلق رکھتی ہو، احکام وعقائد سےمتعلق نہ ہو۔

(2) شدید الضعف نہ ہو مثلا: اس کے راویت میں کوئی کذاب یا متھم بتعمدالکذب یا فاحش الغلط راوی منفردنہ ہو۔

(3) کسی اصل معمول بہ کے تحت آتی ہو۔یعنی نفس عمل کی مشروعیت ( جواز وباحۃ یا استحباب ) دلیل شرعی سےثابت ہو۔اوراس کی فضیلت میں کوئی ایسی ضعیف روایت آئے جس کا کذب اور باطل ہونامعلوم نہ ہو، توترغیب کےلیے اس ضعیف روایت کوبیان کرنا اور اس پر عمل کرنا جائز ہوگا۔ ہوسکتا ہےکہ اس عمل کاوہ ثواب جواس کے روایت میں مذکور ہےحق ہو۔

(4) عمل کرنے والا اس حدیث کےیا اس میں ذکر کردہ ثواب کےثابت ہونے کا عقیدہ نہ رکھے ، بلکہ صرف احتیاط کی راہ اختیار کرنے کاعقیدہ رکھے۔

(5) کوئی کا م ، دین اورثواب کاکام یعنی : واجب یا سنت اورمستحب یامباح نہیں ہوسکتا ، یایوں کہئے کہ عبادت نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ اس کی مشروعیت پر قرآن کی آیت یاحدیث صحیح یاحسن موجود نہ ہو۔ ضعیف حدیث ( متروک واہی ) ہرگز اس کی مشروعیت کےلیے کافی نہیں ہوگی ۔ پس ایسا کام جس کو عبادت ( یعنی سنت ومستحب یا جائز ) سمجھ کرکیا جائے ، لیکن ا س پرنص قرآنی یاحدیث صحیح یا حسن موجود نہ ہو بلکہ صرف شدید الضعف اورواہی حدیث ہو بلاشبہ اس کو غیر مشروع کہا جائے گا، اگرچہ اس کےمنع پر صریح اور  صحیح نص موجود نہ ہو ۔کسی امر کی مشروعیت کےلیے یہ کہنا ہرگز صحیح نہیں چوں کہ اس کے منع پر نص موجود نہیں ہے ا س لیے اس کی مشروعیت کےلیے ضعیف (متروک الاحتجاج ) حدیث کافی نہیں ہوگی ۔ یہ قول  تمام محدثین وفقہاء محققین کےمذہب کےخلاف ہے۔ کسی کے نزدیک بھی حکم شرعی حسن سےکم درجہ کی حدیث سےثابت نہیں ہوسکتا  ، ونیز اس قول کی بناء پر لازم آئے گا کہ بہت سےوہ امور جوبدعت وضلالت ہیں بدعت نہیں رہیں گے۔آں حضرت ﷺ نےاس کے لیے ایک جامع قانون اور عام ضابطہ فرمادیاہے’’ من احدث فی امرنا ھذامالیس نہ فھورد،، یعنی دین میں ایسی  نئی چیز نکالنی جس پر دلیل شرعی ( قرآن وحدیث صحیح یا حسن) موجو د نہ ہوتو وہ مردود وباطل ہے۔

(6) دعا ایک عبادت بلکہ مخ العبادت ہے۔ اس لیے اس میں توسل بالمیت کوعبادت (سنت ،مستحب یا بدرجہ آخر جائز ومباح ) سمجھ کرکیا جاتا ہےاور یہ ایک شرعی حکم ہے۔ پس اس کےثبوت کےلیے ایسی قرآنی نص یا حدیث  مرفوع صحیح یا حسن کا ہونا ضروری ہے جس سے دعا میں مردوں سے توسل کا صرحتۃ استحباب یاجواز ثابت ہوتا ہو، اس کےلیے کسی صحابی کا اثر ( محفوظ یا غیر محفوظ ) یا حدیث مرفوع شیدالضعف ہرگز کافی نہیں ہوگی ۔ بالخصوص جبکہ وہ اثر یا ضعیف حدیث  اجماع صحابہ اوردسری صحیح مرفوع حدیث  کےخلاف ہو۔

یہ جوکچھ لکھا گیا ہے قاعدہ اوراصول وضابطہ کےماتحت لکھا گیا ہے۔ امید ہےآپ کواطمینان ہوجائے گا۔رہ گیا مخالف متبدع ، تو جب اس کے نزدیک ترغیب وترہیب ، بلکہ احکام میں بھی حدیث وضع کرنا اورموضوع حدیث روایت کرنا اور اس پراعتماد وعمل کرنا جائز ہے ،اور  جس کےنزدیک سنت ہےاوربدعت سنت۔بھلا ان اصولی باتوں سےاس کی کیا  تسلی ہوسکتی ہے۔

(3)حضرت عمر ﷜ کی اس حدیث کوطبرانی کے علاوہ بیہقی نےدلائل النبوۃ میں اور حاکم نےمستدرک  2؍ 615 میں روایت کیا ہے۔لیکن یہ حدیث باطل اور موضوع ہےاس کا مدار عبدالرحمن بن زید بن اسلم عن ابیہ عن جدہ ہے، اورعبدالرحمن بالاتفاق ضعیف ہیں ۔امام حاکم کتاب المدخل ( ص: 154) او ر کتاب الضعفاء میں لکھتے ہیں ’’روي اي عبدالرحمن عن أبيه أحاديث موضوعة ، لا يخقي علي من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه ،،انتهي اوران كو ان لوگوں  میں شمار کیا ہے جن کی حدیث  لکھنی بھی نہیں چاہئیے ۔

اورجن کی حدیثوں کےروایت کرنے والوں کوانہوں نے ’’ من حدث بحدیث ، وهو یری أنه کذب ، فهو أحد الکاذبین ،،(ترمذی کتاب العلم باب   ما جاء فی من روی حدیثا وهو یری انه کذب ( 2672) 5؍36.)کا مصداق قراردیا ہے۔افسوس ہےکہ وہ اپنی  مستدرک میں ان کی یہ حدیث روایت کرکے، خود کھلے ہوئے تناقض کا شکار ہوگئے ہیں۔

ونیز طبرانی کی سند میں عبداللہ بن اسمعیل المدنی اورحاکم وبیہقی کی سند میں عبداللہ بن مسلم ابوالحارث الفہری واقع ہیں اوریہ دونوں مجہول ہیں ۔امام ذہبی  نے تلخیص مستدرک 2؍ 615 میں اس حدیث کوموضوع ،اور میزان الاعتدال ( 4؍ 246)میں باطل لکھا ہے۔پس ایسی منکر باطل  وموضوع حدیث سےتوسل بالمیت کی مشروعیت ثابت کرنا جہالت بلکہ شرارت ہے۔مردوں کووسیلہ بنانے کی  مشروعیت  پر دلیل شرعی ( نص قرآنی یاحدیث  صحیح یاحسن ) پیش کرنا مدعی کے ذمہ لازم ہے۔باطل اورموضوع حدیث سے اس کاجواز ثابت کرنا اورمنکرین سےمنع کی نص صحیح طلب کرنا اسراسر زیادتی اور جہل ہے۔

اعاذنا اللہ من ذلک۔   ( مصباح بستی ؍ صفر 1372ھ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 44

محدث فتویٰ

تبصرے