سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(276) شوہر کے رشتہ داروں کی بیوی کی زندگی میں مداخلت حد

  • 15816
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1195

سوال

(276) شوہر کے رشتہ داروں کی بیوی کی زندگی میں مداخلت حد
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسلام میں خاوند کے بہن بھائیوں کے حقوق ہیں؟ کیا ساس اور سسر کی طرح خاوند کے بھائیوں کا بھی اطاعت کا حق ہے؟ کیا انہیں میرے کمرے میں یہ حق حاصل ہے کہ وہ بغیر اجازت داخل ہوں؟میں کس حد تک ان کی اطاعت کروں کپڑے دھونے کھانا وغیرہ تیار کرنے اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور گھر سے نکلنے میں بھی ان کی اطاعت ہے اور کیا انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہماری ازدواجی زندگی میں دخل اندازی کریں؟کیا ہمارے کام رہن سہن اور تعلیم و تربیت میں بھی ان کا حق ہے۔اور کیامجھے اپنے میکے جانے کے لیے ان کی اجازت درکار ہوگی؟اور کیا انہیں ہماری زندگی کی تفصیل کی معرفت کابھی حق ہے اور کیا میں اپنے خاوند کے رشتہ داروں سے مصافحہ کرنے میں ان کی اطاعت کروں؟اور کیا میرے اور خاوندکے لیے ایسی شادیوں میں جانا جائز ہے جہاں برائی ہو؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیوی پر خاوند کے رشتہ داروں کی اطاعت کرنا واجب نہیں خواہ وہ ساس ہو یا سسر یا نند ہو یا دیور ان کی کسی بھی چیز میں اطاعت واجب نہیں لیکن اگر وہ کسی واجب اور شرعی چیز کا حکم دیں یا کسی غیر شرعی اور حرام چیز سے روکیں تو پھر اس میں اطاعت واجب ہے خواہ حکم دینے والا یا روکنے والا قریبی رشتہ دار ہو یا کوئی اور  تاہم خاوند کی اطاعت بیوی پر واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:

"مردعورتوں پر حکمران ہیں۔"(النساء:34)

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  خاوند پربیوی کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے بیوی پر خاوند کا حق اور اس کی اطاعت واجب کی ہے اور بیوی پر خاوند کی نافرمانی حرام کی ہے اس لیے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بیوی پر فضیلت دی ہے۔ (تفسیرابن کثیر 493/1)

آپ کے دیوروں میں سے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ آپ کی اجازت کے بغیرآپ کے کمرے یا پھر گھر میں داخل ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَدخُلوا بُيوتًا غَيرَ‌ بُيوتِكُم حَتّىٰ تَستَأنِسوا وَتُسَلِّموا عَلىٰ أَهلِها ذ‌ٰلِكُم خَيرٌ‌ لَكُم لَعَلَّكُم تَذَكَّر‌ونَ ﴿٢٧﴾... سورة النور

"ایمان والو!تم اپنےگھروں کے علاوہ کسی اور کے گھر میں اس وقت تک نہ جاؤ جب تک تم اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو یہی تمھارے لیے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

اور اگر ان میں سے کوئی آپ کی اجازت سے گھر میں داخل ہواور وہ آپ کا محرم بھی نہیں مثلاً دیور ہو تو اس میں یہ شرط ہے کہ گھر میں آپ کا محرم موجود ہوتا کہ غیر محرم کے ساتھ خلوت نہ ہو سکے جو کہ حرام ہے۔اور پھر آپ بھی پردے میں ہو ں اور کسی فتنے کا ڈر بھی نہ ہو ۔ ان شروط کے باوجود افضل و بہتر دل کو صاف رکھنے اور شک و شبہ سے بچنے کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ آپ کے کمرے میں داخل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

"اور جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو تمھارے اور ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی یہی ہے۔"(الاحزاب:53)

اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے۔

"تم عورتوں کے پاس جانے سے بچو ایک انصاری آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  !آپ دیور کے بارے میں تو بتائیں؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا دیور تو موت ہے۔"( بخاری 5232۔کتاب النکاح باب لایخلون رجل یا مراۃ الاذومحرم مسلم 2172۔کتاب السلام باب تحریم الخوۃ بالاجنیہ والدخول علیہا )

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ :

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے فرمان "دیور تو موت ہے" کا معنی ہے دوسروں سے زیادہ اس سے خدشہ اور فتنے میں مبتلا ہونے کی توقع ہے اس لیے کہ عورت کے پاس جانا اور اس سے خلوت کرنا کے لیے بآسانی ممکن ہے۔اور اس کے گھر میں ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی انکار بھی نہیں کرتا،لیکن اگر کوئی اجنبی ہوتو اس کے لیے یہ ممکن نہیں ۔ اور "حمو"سے مراد خاوند کے آباؤ اجداد اولاد کے علاوہ دوسرے رشتہ دار ہیں مثلاً بھائی بھتیجے چچا اور چچا کے بیٹے وغیرہ ان سب کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ کو ان کاموں پر (جو آپ نے ذکر کیے ہیں) مجبور کریں ۔اور ان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ آپ اور آپ کے خاوند کے خصوصی معاملات میں داخل اندازی کریں لیکن اگر انھوں نے آپ کے خاوند کو اس پر راضی کر لیا کہ آپ جائز قسم کی راحت کے لیے بھی گھرسے نہ نکلیں اور خاوند آپ کو گھر میں ہی رہنے کا کہے تو پھر آپ اپنے خاوند کی اطاعت کریں اور صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سےثواب کی نیت رکھیں ۔ اپنے میکے جانے کے لیے بھی آپ پر لازم نہیں کہ آپ ان میں سے کسی سے اجازت طلب کریں اور نہ ہی ان کا یہ حق ہےبلکہ آپ پر واجب یہ ہے کہ اپنے خاوند سے اجازت لیں اگر وہ اجازت دے دیتا ہے تو پھر اس کے علاوہ کسی سے بھی اجازت لینی واجب نہیں اسی طرح وہ آپ دونوں کی ازدواجی زندگی کی تفصیلات کی معرفت کا بھی کوئی حق نہیں رکھتے ۔

ساس اور سسر کی خدمت کرنا آپ پر واجب تو نہیں لیکن اگر آپ ان کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کے  ساتھ پیش آئیں تو یہ آپ کے لیے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ انشاء اللہ آپ کو اس کے بدلے میں عظیم اجر عطا فرمائے گا۔

اور پھر اس وجہ سے آپ اپنے خاوند اور اس کے گھر والوں کے سامنے دنیا میں بھی ایک مقام حاصل کر لیں گی اور ان شا ء اللہ آخرت میں بھی آپ کے درجات بلند ہوں گے۔ اور مستقل رہائش کے بارے میں گزارش ہے کہ آپ کے خاوند پر واجب ہے کہ وہ آپ کے لیے ایسی رہائش کا انتظام کرے۔جس میں آپ مستقل طور پر رہ سکیں لیکن اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اگر بہت بڑا اور کھلا ہو اور اس میں آپ سب رہ سکتے ہوں تو والدین اور آپ اکٹھے رہیں اس میں آپ پر کوئی ضرر نہیں۔

نیز یہ بھی یادرکھیں۔کہ آپ کا اپنے محرم مردوں کے علاوہ دوسروں سے مصافحہ کرنا حرام ہے اس میں آپ کسی کی بھی بات نہ مانیں اس لیے کہ خالق کی معصیت میں کسی کی بھی اطاعت نہیں اسی طرح آپ اور آپ کے خاندان کے لیے ایسی شادی کی تقریباًت میں شرکت جائز نہیں جہاں پر معاسی اور گناہ کے کام ہوں۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ ہو سب کے حالات کی اصلاح فرمائے اور ہمارے نبی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص348

محدث فتویٰ

تبصرے