سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(270) میں نیک بیوی کیسے بن سکتی ہوں؟

  • 15808
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1097

سوال

(270) میں نیک بیوی کیسے بن سکتی ہوں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں امریکہ سے تعلق رکھتی ہوں اور نئی نئی مسلمان ہوئی ہوں،میری پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہے کہ میں مرد کو اپنے اوپر حاکم نہیں بننے دیتی، اب مشکل یہ ہے کہ میرا خ خاوند امریکی نہیں اور ہم آپس میں بہت ہی زیادہ متصادم رہتے ہیں۔ مجھے اس سے زیادہ روز مرہ ک اُمور اور قوانین کے بارے میں علم ہے  اور اس کی انگلش بھی کوئی اچھی نہیں۔اس لیے مجھے بعض اوقات اس کے لیے کچھ تشریح بھی کرنا پڑتی ہے۔

عام مقامات پر  غالباً میں ہی بات چیت کرنے کافرض ادا کرتی ہوں جو کہ اسے غضب ناک کرتاہے اور اسے اچھانہیں لگتا لیکن میں محسوس کرتی ہوں کہ یہی ایک طریقہ ہے۔ جس پر چل کر ہم اکثر معاملات کو صحیح طور پر حل کرسکتے ہیں۔ اب ہمارے درمیان بہت سے اختلافات ہونے لگے ہیں میں یہ نہیں جانتی کہ میں کس  طرح ایک اسلام  کو مطلوب بیوی بن سکتی ہوں۔کیونکہ میں بھی علوم اسلامیہ کی تعلیم کے مرحلے میں ہوں اور میری سب سے بڑی مشکل یہ  ہے کہ   میں اسے تبدیل کس طرح کروں؟ اور مشکلات کو کس طرح کم کرسکتی ہوں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے آپ کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور اس کی ہدایت نصیب فرمائی اور بندے پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے یہی نعمت  سب سے بڑی ہے۔۔ہم آپ کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے خاوند  پر آپ کے کچھ حقوق مقرر کیے ہیں۔اورآپ پر بھی آپ کے خاوند کے کچھ حقوق واجب کیے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ آپ پر اللہ  تعالیٰ نے جو کچھ خاوند کے حقوق واجب کیے ہیں اسے ادا کرتی رہیں اورشریعت اسلامیہ نے خاوند کے حقوق کو بہت ہی عظیم  بنایا ہے اور پھر اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاندان کی دیکھ بھال بھی واجب کی ہے۔

ایک مسلمان عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ معاملات کرنے میں عقل مندی اور حکمت سے کام لے۔بلاشبہ انسان کو نرم اور اچھی بات  اپنا اسیر بنالیتی ہے اور اچھے معاملات بھی اسے اپنا مقید کر لیتے ہیں اور اگر یہی چیز اس کی شریک حیات اور دکھ درد کی ساتھی سے صادر ہو تو ا س کا اثر تو بہت ہی زیادہ ہوتا ہے۔اور پھر ایک عقل مند عورت اپنے معاملات اور تصرفات میں ہر اس چیز سے دوررہتی ہے۔جو اس کے خاوند کوبری لگتی ہو اور ہر اس فعل سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے جو اس کے خاوند کو  پریشان کرتا ہو۔وہ یہ کوشش نہیں کرتی کہ اپنی شخصیت کو خاوند  پر ٹھونسنے کیونکہ مرد کے پاس تو سلطہ ہے اور بعض مختلف موقعوں پر اسے نقص اور کمی کا احساس دلانا اسے غصہ دلاتا ہے۔مثالی بیوی وہ ہے جسے ازدواجی موافقت  کا فن آتا ہو اور خاوند کی اطاعت اس کے احترام اور اپنی شخصیت میں توازن قائم رکھ سکتی ہو۔

آپ کا اس کی طرف سے لوگوں سے بات چیت کرنا شرعاً جائز ہے اس لیے کہ وہ آپ کی قومی زبان نہیں جانتا لیکن جیسا کہ   پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اس طرح کے کام میں آپ نہایت حکمت سے کام لیں۔آپ ایسا کام کرتے وقت اسے یہ احساس نہ ہونےدیں کہ اس میں نقص یا کمی ہے اور اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔بلکہ لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے آ پ بار بار اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس سے مشورہ طلب کریں اور اس کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہ کریں۔اور جس سے آپ بات کررہی ہوں وہ آپ کے خاوند کی قدر وقیمت محسوس کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اسے یہ احساس دلائیں کہ وہ اپنی زبان میں آپ سے بھی زیادہ ماہر ہے۔اور آپ دونوں ایک د وسرے کو مل کر مکمل کرتے ہیں۔آپ اسے انگلش سکھانے میں اس کا  تعاون کریں اور وہ آپ کو ا پنی زبان سکھانے میں آپ کا تعاون کرے۔ہم آپ کو یہی نصیحت کریں گے اور یہی ایک چیز ہے جو اس کے غصے کو روک سکتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو ایک صالحہ اور نیک بیوی بننے کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ پر واجب کیا ہے اس کی معرفت رکھیں اور اس پر عمل کریں۔نیز یہ بھی ضروری ہے کہ آپ فاضلہ قسم کی عورتوں اور صحابیات کے اخلاق ومعاملات کو نبھانے میں اچھے اور احسن انداز کو بھی جانیں۔یہ چیز آ پ سے کوشش کی محتاج ہے حتیٰ کہ آپ اس کی عادی ہوجائیں لیکن یہ چیز کوئی ناممکن نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم    نے تو اس طرح فرمایا ہے:

"علم تو سیکھنے سے ہی حاصل ہوتا ہے علم وبردباری سے اختیار کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے اور جو کوئی بھی خیر تلاش کرتا ہے اسے خیر عطا کی جاتی ہے۔اور جو کوئی بھی شر اور برائی سے بچتا ہے اسے اس سے بچا لیا جاتا ہے۔"( حسن صحیح الجامع الصغیر(2328)

اسی طرح کی کچھ صفات کے بارے میں ایک عقل مندماں نے اپنی بیٹی کو شادی کے وقت وصیت کی تھی اور کہاتھا کہ:

میری پیاری بیٹی تو اس گھر کو چھوڑ رہی ہے جہاں تو پیدا ہوئی اور تیرا وہ گھر جہاں تو ایک ایسے شخص کے پاس جارہی ہے جسے تو جانتی بھی نہیں اور ایسے ساتھی کے پاس جارہی ہے جس سے تو مانوس نہ تھی تو اس کے لیے لونڈی بن کرر ہے گی تو وہ تیرا غلام بن جائے گا اور اس کے لیے دس خصلتوں کی حفاظت کر نا یہ تیرے لیے ذخیرہ بنے گا:

پہلی اور دوسری خصلت یہ ہے کہ خاوند کے لیے قناعت کے ساتھ عاجزی کرنا اوراس کی اچھی طرح اطاعت وفرمانبرداری کرنا۔تیسری اور چوتھی یہ ہے کہ اس کی آنکھ اور ناک کے بارے میں خیال رکھنا یعنی اس کی آنکھ  تیرے کسی قبیح کام پر نہ پڑے اور اس کی ناک ہمیشہ  تجھ سے خوشبو ہی سونگھے۔پانچویں اور چھٹی خصلت یہ ہے کہ اس کی نیند اورکھانے کے اوقات کاخیال رکھنا اس لیے کہ بھوک کی حرارت جلن پیدا کرتی ہے۔اور نیند کی کمی غضب ناک کردیتی ہے۔ساتویں اور آٹھویں یہ ہے کہ اس کے مال کی حفاظت کرنا اور اس کے بچوں اور عزت کا خیال رکھنا نویں اور دسویں یہ ہے کہ مال  میں اچھے انداز سے تصرف کرنا اس کی بقاء اور سہارا ہے اور عیال میں اس کا سہارا حسن تدبیر ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ خاوند پر بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے رب  کاتقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنی بیوی ک حقوق میں کمی نہ کرے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پر بیوی کے حقوق واجب کیے ہیں انہیں ادا کرے اور آپ اپنے خاوند کو نصیحت کریں کہ غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھا کرے اورغصہ بھی اس وقت ہوا کرے جب اللہ تعالیٰ کی حرمت کو پامال کیا گیا ہو۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص342

محدث فتویٰ

تبصرے