سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(266) بیوی کو مارنا پیٹنا

  • 15804
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3081

سوال

(266) بیوی کو مارنا پیٹنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں صراحتاًکہتا ہوں کہ میں سوالات میں آپ کے جوابات سے بہت حیران ہوا ہوں کہ آپ نے سوالات کے جوابات بہت ہی ذہانت  وفطانت سے دیے ہیں۔میں حقیقتاً اسلام کے بارے میں مزید معلومات چاہتا ہوں۔لیکن میں جہاں ہر بار ایک نئی چیز سیکھتا ہوں وہاں کچھ شبہ میں بھی پڑ جاتاہوں۔اس بار میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے۔کہ قرآن مجید مرد کے لیے ا پنی بیوی کو مارنا پیٹنا  یا دانتوں سے کاٹنا جائز قرار دیتاہے؟اور اگر جواب اثبات میں ہے تو  میں اس کی تفصیلی وضاحت چاہتا ہوں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید میں کہیں بھی ایسی آیت نہیں جس سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہو کہ مرداپنی بیوی کودانتوں سے کاٹ سکتاہے۔

1۔قرآن کریم تو خاوند کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ احسان کرے اور اس سے حسن معاشرت اختیار کرے حتیٰ کہ اگر قلبی محبت ختم  بھی ہوجائے تو بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔اس کے متعلق قرآن مجید میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

﴿ وَعاشِر‌وهُنَّ بِالمَعر‌وفِ فَإِن كَرِ‌هتُموهُنَّ فَعَسىٰ أَن تَكرَ‌هوا شَيـًٔا وَيَجعَلَ اللَّهُ فيهِ خَيرً‌ا كَثيرً‌ا ﴿١٩﴾... سورة النساء

"اور ان(عورتوں) کے ساتھ اچھے انداز میں بودوباش اختیار کرو،گو تم انہیں ناپسند ہی کرو لیکن بہت ہی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی پیدا کردے۔"

2۔قرآن مجید نے یہ بھی بیان کیا ہے  کہ عورت کے اپنے خاوند پر کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح خاوند کے بھی اس کی بیوی پر کچھ حقوق ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید ذکر کرتاہے:

﴿ وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعر‌وفِ وَلِلرِّ‌جالِ عَلَيهِنَّ دَرَ‌جَةٌ وَاللَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٢٢٨﴾... سورة البقرة

"اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔"

مندرجہ بالاآیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ مرد کو عورت پر کچھ زیادہ حقوق حاصل ہیں جو کہ خرچہ وغیرہ میں اس کی مسئولیت اور ذمہ داری کے بدلے میں ہیں۔

3۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے خاوند کو ا پنی بیوی کے بارے میں احسان اور اس کی عزت کرنے کی وصیت  فرمائی ہے بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے تو لوگوں میں سب سے بہتر اسی شخص کو قرار دیا ہے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ احسان کرتا ہے فرمایا:

«"خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي "  »

"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے  گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب  سے زیادہ بہتر ہوں۔"( صحیح ۔صحیح ترمذی  ترمذی (3895) کتاب المناقب:باب فضل ازواج النبی  صلی اللہ علیہ وسلم   ابن ماجہ (1977) کتاب النکاح باب حس معاشرۃ النساء)

4۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کا یہ بھی فرمان ہے کہ:

"تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو،بلاشبہ تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی امان سے حاصل کیا ہے اور ان کی شرمگاہوں  کو اللہ تعالیٰ کے کلمے سے حلال کیا ہے۔ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اور شدید تکلیف دہ نہ ہو اور ان کاتم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں اچھے اور احسن  انداز س نان ونفقہ اور رہائش دو۔"( مسلم(1218) کتاب الحج:باب حجۃ النبیؐ)

اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے فرمان"جسے تم نا پسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو"کا معنی یہ ہے کہ وہ انہیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں جنھیں تم اپنے گھر میں داخل کرنا اور بٹھانا ناپسند نہیں کرتے خواہ وہ اجنبی مرد ہو یا کوئی عورت یا خاوند کے رشتہ دار سب اس ممانعت میں شامل ہیں۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بیوی خاوند کی نافرمانی کرتی ہے تو اسے شدید مار نہیں البتہ ہلکا سا مارا جاسکتا ہے۔یہ اجازت بھی اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں فرمایا ہے کہ:

﴿وَالّـٰتى تَخافونَ نُشوزَهُنَّ فَعِظوهُنَّ وَاهجُر‌وهُنَّ فِى المَضاجِعِ وَاضرِ‌بوهُنَّ فَإِن أَطَعنَكُم فَلا تَبغوا عَلَيهِنَّ سَبيلًا إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبيرً‌ا ﴿٣٤﴾... سورة النساء

"جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمھیں خوف ہوا نہیں نصیحت کرو اور  انہیں الگ بستروں پر چھوڑدو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو،بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔"

تو جب عورت اپنے خاوند کے خلاف سرکشی کرے اس کی مخالفت کرے اور اس کی بات تسلیم نہ کرے تو وہ اس کے ساتھ یہ تین طریقے استعمال کرے سب سے پہلے اسے وعظ ونصیحت کرے،پھر بستر سے علیحدگی اور  پھر آخر میں مار لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ شدید قسم کی مار نہ ہو،جس سےاسے زخم ہویا پھر ہڈی ٹوٹنے کا خدشہ ہو۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی مار ہے جو اپنا اثر نہ چھوڑے۔امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   سے (حدیث میں موجود) غیر شدید  مار کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا مسواک وغیرہ سے مارے۔

واضح رہے کہ اس مار سے عورت کو اذیت دینایا اس کی توہین کرنا مقصود نہیں بلکہ مقصودصرف اسے یہ  شعور دلانا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے حق میں غلطی کررہی ہے۔اور اس کے خاوند کو  اس کی اصلاح کرنے کاحق  حاصل ہے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمدالمنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص334

محدث فتویٰ

تبصرے