سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(264) کیا بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے مال میں تصرف کر سکتی ہے؟

  • 15782
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2010

سوال

(264) کیا بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے مال میں تصرف کر سکتی ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ملازمت کرتی ہوں جس کی مجھے تنخواہ بھی ملتی ہے میں اس سے اپنے آپ اور گھر میں خرچ کرتی ہوں اور اپنے میکے والوں کو بھی دیتی اور صدقہ وخیرات بھی کرتی ہوں۔میرے اور میرے شوہر کے درمیان اپنا مال خرچ کرنے کے بارے میں اختلافات ہوتے رہتےہیں ۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرے خاوند کو میری ذاتی رقم خرچ کرنے میں اعتراض کرنے کاکوئی حق ہے اور کیا مجھ پراپنا ذاتی مال خرچ کرنے کے لیے اس سے اجازت لینی واجب ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ عاقل،بالغ،اورآزاد شخص اگرتصرفات کرسکتا ہو تو اپنی زندگی میں اپنے ذاتی مال میں تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔اور اس کے لیے جائز ہے کہ وہ خرید  وفروخت کرے یا کرایہ وغیرہ پردے یا پھر ہبہ اور وقف کرے اسی طرح باقی  تصرفات بھی اس کے لیے جائز ہیں اور اہل علم کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں اور اہل علم کا اس مسئلے  میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ خاوند کواپنی بیوی کے ذاتی مال میں کوئی اعتراض کرنے کا حق نہیں جبکہ اس کا تصرف کسی عوض  میں ہو یعنی خریدوفروخت اور کرایہ وغیرہ اور جب وہ عورت تصرف کرنے کا سلیقہ بھی جانتی ہو اور عادتاً دھوکے باز بھی نہ ہوتو اس کے لیے تصرف درست ہے۔( دیکھیں مراتب الاجماع لابن حزم(126) الاجماع فی الفقہ السلامی(2/566)

علمائے کرام کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ کیا عورت اپنا سارا مال یا اس میں سے کچھ حصہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر ہبہ کرسکتی ہے؟ذیل میں ہم مختلف مذاہب بیان کرتے ہیں:

1۔مالکیہ اور حنابلہ کی ایک روایت ہے کہ ثلث سے زیادہ مال کے ہبہ میں خاوند کو روکنے کا حق ہے اس سے کم میں خاوند کو روکنے کا حق نہیں۔( شرح الخرشی(7/103) المغنی لابن قدامہ(4/513) نیل الاوطار(6/22)

ان کے دلائل یہ ہیں:

1۔حضرت کعب بن مالک رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   کی بیوی خیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس  اپنا زیور لے کر آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے اسے فرمایا،عورت کو اپنے مال میں سے خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ بھی(تصرف) جائز نہیں تو کیا تو نے کعب  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   سے اجازت لی ہے۔اس نے کہا،جی ہاں۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے کعب رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   کے پا ایک آدھی بھیجا تاکہ وہ ان سے  پوچھے کہ کیا تو نے خیرہ کو اپنا زیور صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے۔تو انہوں نے جواب میں کہا ،جی ہاں،میں نے اجازت دی ہے ۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے اسے قبول کرلیا۔( صحیح صحیح ابن ماجہ ابن  ماجہ(2389) کتاب الھبات باب عطیۃ المراۃ بغیر اذن زوجھا)

2۔عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کسی بھی عورت کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں۔( حسن صحیح :صحیح ابو داود ،ابوداود(3547) کتاب الاجارۃ باب فی عطیہ المراۃ بغیر اذن زوجھا صحیح الجامع الصغیر(7626)

3۔اور ایک  روایت میں ہے کہ:

"جب خاوند بیوی کی عصمت کا مالک بن جائے تو اس کے لیے اپنے مال میں کچھ بھی(تصرف) جائز نہیں۔"( مسند احمد(2/179)

یہ اور اس سے  پہلے والی حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ خاوندکی اجازت کےبغیر اپنےمال میں تصرف کرسکے اور اس میں یہ ظاہر ہے کہ عورت کے لیے اپنے مال میں تصرف کے لیے خاوند کی اجازت شرط ہے۔اس قول کے قائلین نے ثلث سے زیادہ کی شرط دوسرے دلائل کی وجہ سے لگائی ہے جن میں سے یہ بھی ہے کہ مالک کو صرف ثلث یا اس سے کم میں وصیت کرنے کاحق حاصل ہے۔وہ اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا ہاں اگر ورثاء اجازت دیں تو  پھر کرسکتاہے۔جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   کے قصہ میں ہے کہ انہوں نے فرمایا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   میری عیادت کے لیے تشریف لائے میں اس وقت مکہ میں تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   اس  سرزمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کرچکاہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا،اللہ ابن عفراء پررحم کرے۔میں نے عرض کیا،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !

«قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ ‏"‏ لاَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ فَالشَّطْرُ قَالَ ‏"‏ لاَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ الثُّلُثُ‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ،»

"میں اپنے سارے مال کی وصیت کردوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا نہیں۔میں نے پوچھا،پھر آدھے کی کردوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا، نہیں ۔میں نے پوچھا  پر تہائی مال کی کردوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا،تہائی مال کی کر سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے۔اگر تم اپنے وارثوں کو  ا پنے  پیچھے مالدار چھوڑو تو اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے  پھریں۔"( بخاری(2742) کتاب الوصایا باب ان یترک ورئتہ اغنیاء خیر من ان یتکففو الناس ،مسلم(1628) کتاب الوصیۃ باب الوصیۃ بالثلث ابو داود(2864) کتاب الوصایا باب ماجاء فی مالا یجوز للموصی فی مالہ ترمذی(2116)کتاب الوصایا باب ماجاء فی الوصیۃ بالثلث اب ماجہ(2708)

2۔خاوند کو مطلق طور پر بیوی کو اس کے مال میں تصرف سے روکنے کا حق حاصل ہے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ لیکن صرف خراب اور ضائع ہونے والی اشیاء میں یہ حق نہیں۔یہ قول لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے۔( نیل الاوطار(6/22)

3۔عورت کو ا پنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کرنے کا حق نہیں۔یہ طاوس رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے کہ طاوس رحمۃ اللہ علیہ  نے عمرو بن شعیب والی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ:

"عورت کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر اپنے مال کا عطیہ دیناجائز نہیں۔"( فتح الباری(5/218)

4۔عورت کو اپنےمال میں مطلقاً تصرف کاحق حاصل ہے۔خواہ وہ عوض کے ساتھ ہو یا بغیر عوض کے اور خواہ وہ سارے مال میں ہو یا کچھ میں۔یہ قول جمہور علمائے کرام کا ہے،جن میں شافعیہ،احناف،حنابلہ کا ایک مذہب اور امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ  شامل ہیں۔( المغنی لابن قدامۃ(4/513) الانصاف(5/342) شرح معانی الآثار(4/354) فتح الباری(5/318) نیل الاوطار(6/22)

کتاب وسنت اور غوروفکر کے لحاظ سے سب سے زیادہ عدل والا اور وہ صحیح قول یہی ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کافرمان ہے:

﴿وَءاتُوا النِّساءَ صَدُقـٰتِهِنَّ نِحلَةً فَإِن طِبنَ لَكُم عَن شَىءٍ مِنهُ نَفسًا فَكُلوهُ هَنيـًٔا مَر‌يـًٔا ﴿٤﴾... سورة النساء

"اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو،ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہوکر کھالو۔"

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خاوند کے لیے بیوی کے صرف اسی مال کو مباح قرار دیاہے جسے دینے پر وہ خود راضی ہو۔ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿وَإِن طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ وَقَد فَرَ‌ضتُم لَهُنَّ فَر‌يضَةً فَنِصفُ ما فَرَ‌ضتُم إِلّا أَن يَعفونَ...﴿٢٣٧﴾... سور ة البقرة

"اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیاہوتو مقررہ مہرکا آدھا مہر دے دو یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردیں۔"

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورت کو خاوند کے طلاق دینے کے بعد اپنامال معاف کرنے کی اجازت دی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو ا پنے مال میں اسی طرح تصرف کی اجازت ہے جیسے مرد کو اپنے مال میں ہے۔( مزید دیکھئے شرح معانی الآثار (4/352)

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح فرمایاہے:

﴿وَابتَلُوا اليَتـٰمىٰ حَتّىٰ إِذا بَلَغُوا النِّكاحَ فَإِن ءانَستُم مِنهُم رُ‌شدًا فَادفَعوا إِلَيهِم أَمو‌ٰلَهُم ...﴿٦﴾... سورة النساء

"اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر تم ان  میں ہوشیاری اورحسن تدبیر  پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو۔"

اس آیت سے یہ بات عیاں ہے کہ اگر یتیم بچی ہوشیار اور بالغ ہوجائے تو اس کے لیے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز ہے۔اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم    نے عید کے خطبہ میں وعظ ونصیحت کیا تو عورتوں نے اپنے زیورات صدقہ میں دے دیئے۔تو یہ سب کچھ اس پر دلالت کرتاہے کہ عورت کا ا پنے مال میں تصرف جائز ہے اور اسے اس کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔

"نیل الاوطار" میں ہے کہ جمہور اہل علم کا کہنا ہے:

جب عورت بے وقوف نہ ہوتو اس کےلیے مطلقاً اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز ہے اور اگر وہ  بے وقوف ہوتو پھر جائز نہیں۔

"فتح الباری" میں ہے کہ:

جمہور علمائے کرام کی اس بات پر کتاب وسنت میں بہت سے دلائل ہیں۔جمہور نے اس حدیث"عورت کے لیے اپنے مال میں خاوند کی عصمت میں ر ہتے ہوئے ہبہ جائز نہیں(اور اس معنی کی دیگر احادیث)"سے استدلال کرنے والوں کا رویوں کیا ہے کہ یہ حدیث صرف ادب وحسن معاشرت ،خاوند کے بیوی پر حق اور مقام ومرتبہ، اس کی قوت رائے اور عقل پر محمول ہے کہ خاوند ان اشیاء میں عورت سے پختہ ہوتاہے۔سنن نسائی کی شرح میں امام سندھی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی یہی ثابت کیا  ہے کہ اگر یہ حدیث ثابت ہوتو اس کامطلب یہی ہوگا کہ عورت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے خاوند سے اجازت لے لیکن اس پر واجب یا شرط نہیں۔لہذا اگرعورت اپنے ذاتی مال میں تصرف کرتے وقت بھی اپنے شوہر سے اجازت لے لے یا مشورہ کرلے یا اسے بتادے تو یہ حسن معاشرت کا ایک حصہ خاوند کو راضی کرنے کا ایک طریقہ اور مذکورہ بالا احادیث کی وجہ سے مستحب ضرور ہے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمدالمنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص329

محدث فتویٰ

تبصرے