سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(233) بیوی سے عزل کرنا تاکہ وہ تعلیم مکمل کر سکے

  • 15751
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1528

سوال

(233) بیوی سے عزل کرنا تاکہ وہ تعلیم مکمل کر سکے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب دو سال یا اس سے بھی زیادہ مدت کی تعلیم باقی ہو تو کیا بیوی سے عزل یا کوئی اور صورت جائز ہو سکتی ہے کہ حمل نہ ٹھہرے اور وہ دینی تعلیم مکمل کر لے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں نکاح کے مقاصد میں نسل کا وجود اور کثرت امت شامل ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

"تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم يوم القيامة"

"میں (روز قیامت) تمھاری کثرت کے باعث امتوںپر فخر کرنا چاہتا ہوں اس لیے تم بہت محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی خواتین سے ہی نکاح کرو۔( صحیح ارواء الغلیل 1784۔آداب الزفاف ص/133۔132۔ابو داؤد 2050۔ کتاب النکاح باب النھی عن ترویج من لم یلدمن النساء احمد 158/3۔الحلیۃ لابی نعیم 219/4طبرانی اوسط کنا فی الجمع 2235۔ابن حبان 4028۔بیہقی 81/7)

دوسری بات یہ ہے کہ بیوی سے عزل کرنا یعنی بیوی کی شرمگاہ سے باہر ہی منی خارج کردینا ایک شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اس میں بیوی کی اجازت ہو۔

اگر وہ اس کی اجازت دے تو پھر شوہر عزل کر سکتا ہے کیونکہ بیوی کو بھی استمتاع اور بچے کا حق ہے اور عزل کرنے سے یہ دونوں حق ختم ہوجاتے ہیں حضرت جابر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کا بیان ہے۔کہ

"كُنَّا نَعْزِلُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقُرْآنُ يَنْزِلُ "

"نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن بھی نازل ہورہا تھا ۔"( بخاری 5209۔ کتاب النکاح باب العزل مسلم 1440۔ کتاب النکاح باب حاکم العزل ابو یعلی 2193۔ترمذی کتاب النکاح باب ماجاء العزل احمد 377/3بیہقی)

ایک روایت میں یہ لفظ ہیں کہ سفیان نے کہا اگر اس سے منع کیا جانا ہوتا تو قرآن مجید ہمیں منع کردیتا ۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ:

علمائے کرام کے ایک گروہ نے عزل کو حرام قرار دیا ہے لیکن آئمہ اربعہ کا مذہب یہ ہے کہ بیوی کی اجازت سے عزل کرنا جائز ہے۔ (مجموع الفتاوی 110/32) (واللہ اعلم)

تیسری بات یہ ہے کہ خاوند اور بیوی کے لیے بالاتفاق مقرر مدت تک نسل کی حد بندی کرنا جائز ہے لیکن یہ کام مستقل نہیں ہو نا چاہیے اور اس کے جواز میں بھی یہ شرط ہے کہ کوئی ایسا ذریعہ استعمال نہ کیا جائے جو عورت کے لیے نقصان دہ ہو۔

شیخ ابن عثیمین  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں ۔

اگر کسی عورت کو بہت زیادہ حمل ہو تا ہو اور حمل اسے بہت زیادہ کمزوری تک پہنچا دیتا ہواور اس وجہ سے وہ یہ چاہتی ہو کہ اسے ہردوسال بعد حمل ٹھہرے تو اس کے لیے منع حمل جائز توہے مگر یہ شرط ہے کہ اس کے خاوند نے اسے اس کی اجازت دی ہو اور ایسا کرنے سے اسے ذاتی طور پر بھی کوئی نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔ (واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص300

محدث فتویٰ

تبصرے